- Advertisement -

مسز ڈی سلوا

ایک افسانہ از سعادت حسن منٹو

مسز ڈی سلوا

بالکل آمنے سامنے فلیٹ تھے۔ ہمارے فلیٹ کا نمبر تیرہ تھا۔ اس کے فلیٹ کا چودہ۔ کبھی کوئی سامنے کا دروازہ کھٹکھٹاتا تو مجھے یہی معلوم ہوتا کہ ہمارے دروازے پر دستک ہورہی ہے۔ اسی غلط فہمی میں جب میں نے ایک بار دروازہ کھولا تو اس سے میری پہلی ملاقات ہُوئی۔ یوں تو اس سے پہلے کئی دفعہ میں اسے سیڑھیوں میں، بازار میں اوربالکونی میں دیکھ چکی تھی مگر کبھی بات کرنے کا اتفاق نہ ہوا تھا۔ جب میں نے دروازہ کھولا تو وہ میری طرف دیکھ کر مسکرائی اور کہنے لگی۔

’’تم نے سمجھا کوئی تمہارے گھر آیا ہے۔ ‘‘

میں بھی جواب میں مسکرا دی۔ چند لمحات تک وہ اپنے دروازے کی دہلیز میں اور میں اپنے دروازے کی دہلیز میں کھڑی رہی۔ اس کے بعد وہ مجھ سے اور میں اس سے اچھی طرح واقف ہو گئی۔ اس کا نام میری یا خدا معلوم کیا تھا۔ مگر اس کے خاوند کا نام پی۔ این ڈِسلوا تھا چنانچہ میں اسے مسز ڈی سلوا ہی کہتی تھی۔ میں اسے میری ضرور کہتی مگر وہ عمر میں مجھ سے کہیں بڑی تھی۔ موٹے موٹے نقش، چھوٹی گردن، اندردھنسی ہوئی ناک پکوڑا سی، سر چھوٹا جس پر کٹے ہوئے بال ہمیشہ پریشان رہتے تھے۔ آنکھیں دوات کے منہ کی طرح کھلی رہتی تھیں۔ معلوم نہیں سوتے میں انکی شکل کیسی ہوتی ہو گی؟ اس کا خاوند معمولی شکل و صورت کا آدمی تھا۔ کسی دفتر میں کام کرتا تھا۔ جب شام کو گھر لوٹتا اور مجھے باہر بالکنی میں دیکھتا تو اپنے بھورے رنگ کا ہیٹ اتار کر مجھے سلام ضرور کرتا بے حد شریف آدمی تھا۔ مسز ڈی سلوا بھی بہت ملنسار اور با اخلاق عورت تھی۔ دونوں میاں بیوی پُرسکون زندگی بسر کرتے تھے۔ چار پانچ برس کا ایک لڑکا تھا اس کو دیکھ کر کبھی ایسا معلوم ہوتا تھا کہ باپ چھوٹا ہو گیا ہے اور کبھی ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ماں سکڑ گئی ہے ماں باپ دونوں کے نقش کچھ اس طرح اس بچے میں خلط ملط ہو گئے تھے کہ آدمی فیصلہ نہیں کرسکتا تھا کہ وہ ماں پر ہے یا باپ پر۔ پانچ برس میں ان کے یہاں صرف یہی ایک بچہ تھا۔ مسز ڈی سلوا نے ایک روز مجھ سے کہا تھا۔

’’ہمارا ماں بھی اس موافق بچہ دیا کرتا تھا۔ پانچ برس کے پیچھے ایک پہلے ہم ہوا۔ پانچ برس کے پیچھے ہمارا بھائی ہوا۔ اس کے پیچھے ہمارا ایک اور بہن۔ ‘‘

پانچ برس کی قید چونکہ پوری ہو چکی تھی۔ اس لیے مسز ڈی سلوا اب پیٹ سے تھی اس کا خاوند بہت خوش تھا۔ مجھے مسز ڈی سلوا نے بتایا کہ اپنی ڈائری میں اس نے کئی تاریخیں لکھ رکھی ہیں۔ پہلے بچے کی پیدائش کی تاریخ۔ ہونے والے بچے کی پیدائش کی تاریخ کا اندازہ اور وہ سال جس میں کہ تیسرا بچہ پیدا ہو گا۔ یہ سارا حساب اس نے اپنی ڈائری میں درج کر رکھا تھا۔ مسز ڈی سلوا کہتی تھی کہ اس کے خاوند کو پانچ برس کی یہ قید اچھی معلوم نہیں ہوتی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ ایک بچہ پیدا کرنے کے بعد وہ پانچ برس کے لیے کیوں چھٹی پر چلی جاتی ہے۔ مسز ڈی سلوا خود حیران تھی مگر اسے فخرسمجھتی تھی کہ وہ اپنی ماں کے نقش قدم پر چل رہی ہے۔ میں بھی کم متحیر نہ تھی، سوچتی تھی یا الٰہی یہ پانچ برسوں کا چکر کیا ہے کیوں ان دونوں میں سے ایک گنتی نہیں بھول جاتا؟۔ قدرت نے کیا اس عورت کے اندر ایسی مشین لگا دی ہے کہ جب پانچ سال کے پانچ چکر ختم ہو جاتے ہیں تو کھٹ سے بچہ پیدا ہو جاتا ہے۔ خدا کی باتیں خدا ہی جانے۔ ہمارے پڑوس میں ایک اور عورت بھی جو ڈیڑھ برس سے پیٹ سے تھی۔ ڈاکٹر کہتے تھے کہ اس کے رحم میں کوئی خرابی ہے۔ بچہ موجود ہے جو پیدا ہو جائے گا مگر اس کی نشوونما تھوڑے تھوڑے وقفوں کے بعد چونکہ رک جاتی ہے اس لیے ابھی تک اتنا بڑا نہیں ہوا کہ پیدا ہوسکے۔ امی جان جب مجھ سے یہ باتیں سُنتی تھیں تو کہا کرتی تھیں قیامت آنیوالی ہے خدا جانے دنیا کو کیاہو گیا ہے۔ پہلے کبھی ایسی باتیں سننے میں نہیں آتی تھیں۔ عورتیں چُپ چاپ نو مہینے کے بعد بچے جن دیا کرتی تھیں۔ کسی کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہوتی تھی۔ اب کسی کے بچہ پیدا ہونے والا ہو تو سارے شہر کو خبر ہو جاتی ہے۔ مٹکا سا پیٹ لیے باہر جارہی ہیں۔ سڑکوں پر گھوم رہی ہیں۔ لوگ دیکھ رہے ہیں مگر کیا مجال کہ ان کو ذرا سی بھی حیا آجائے۔ آج کل تو دیدوں کا پانی ہی مر گیا ہے۔ میں یہ سنتی تھی تو دل ہی دل میں ہنستی تھی۔ امی جان کا پیٹ بھی کئی بار پھول کر مٹکا بن چکا تھا اوریہ مٹکا لیے وہ گھر کا سارا کام کاج کرتی تھیں ہر روز مارکیٹ جاتی تھیں مگر جب دوسروں کو دیکھتی تھیں یا ان کے متعلق باتیں سنتی تھیں تو اپنی آنکھ کا شہتیر نہیں دیکھتی تھیں دوسروں کی آنکھ کا تنکا انھیں فوراً نظر آجاتا تھا۔ آدمی اگر اس مصیبت میں گرفتار ہو جائے تو کیااسے باہر آنا جانا بالکل بند کردینا چاہیے۔ مٹکا سا پیٹ لیے بس گھر میں بیٹھے رہو۔ صوفے پر سے اٹھو چارپائی پر لیٹ جاؤ۔ چارپائی سے اٹھو تو کسی کرسی پر لیٹ جاؤ۔ مگر آفت تو یہ ہے کہ مٹکا سا پیٹ لیے بیٹھنے اور لیٹنے میں بھی تو تکلیف ہوتی ہے۔ جی چاہتا ہے کہ آدمی چلے پھرے تاکہ بوجھ کچھ ہلکا ہو۔ یہ کیا کہ پیٹ میں بڑی سی فٹ بال ڈالے گھر کی چار دیواری میں قید رہو۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ امی جان حیاکیوں طاری کرنا چاہتی ہیں۔ بھئی اگر کوئی پیٹ سے ہے تو کیا اس کا قصور ہے؟ اس نے کوئی شرمناک بات کی ہے جو وہ شرم محسوس کرے۔ جب خدا کی طرف سے یہ مصیبت عورتوں پر عائد کردی گئی کہ وہ ایک مقررہ مدت تک بچے کو پیٹ میں رکھیں تو اس میں شرمانے اور لجانے کی بات ہی کیا ہے اور اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ سب کام چھوڑ کر آدمی بالکل نکما ہو جائے اس لیے کہ اُسے بچہ پیدا کرنا ہے۔ بچہ پیدا ہوتا رہے۔ اب کیا اس کے لیے باہر آنا جانا موقوف کردیا جائے۔ لوگ ہنستے ہیں تو ہنسیں، کیا ان کے گھر میں ان کی مائیں اور بہنیں کبھی پیٹ سے نہیں ہوں گی۔ بھئی، مجھے تو امی جان کی یہ منطق بڑی عجیب سی معلوم ہوتی ہے اصل میں ان کی عادت یہ ہے کہ خواہ مخواہ ہر بات پر اپنا لیکچر شروع کردیتی ہے خواہ کسی کو بُرا لگے یا اچھا۔ اپنی لڑکی کی بات ہو تو کبھی کچھ نہ کہیں گی۔ پچھلی دفعہ جب عارف میرے پیٹ میں تھا اور میں ہر روز اپولو بندر سیر کو جاتی تھی تو قسم لے لو جو ان کے منہ سے میرے خلاف کچھ نکلا ہو، پر اب چونکہ بات مسز ڈی سلوا کی تھی جو بیچاری صرف اتوار کی صبح گرجا میں نماز پڑھنے اور شام کو سودا سلف لانے کے لیے اپنے خاوند کے ساتھ باہر نکلتی تھی اس لیے امی جان کو

’’تو یہ ہے بیوی، تو یہ ہے بیوی‘‘

کہنے کا موقع مل جاتا ہے۔ پہلے بچے پر پیٹ زیادہ نہیں پھولتا، لیکن دوسرے بچے کو چونکہ پھیلنے کے لیے زیادہ جگہ مل جاتی ہے۔ اس لیے پیٹ بہت بڑا ہو جاتا ہے۔ مسز ڈی سلوا لمبا سا چغہ پہنے جب گھر میں چلتی پھرتی تھی تو اس کا پیٹ بہت بدنما معلوم ہوتا تھا۔ قد اس کا چھوٹا تھا۔ پنڈلیاں جو بہت پتلی تھیں اور چغے کے نیچے آہستہ آہستہ حرکت کرتی تھیں۔ بہت ہی بھدی تصویر پیش کرتی تھیں۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گھڑونچی پر مٹکا رکھا ہے سارا دن اس لمبے چغے میں وہ کارٹون بنی رہتی تھی۔ شروع شروع میں بیچاری کی بہت بُری حالت ہُوئی تھی۔ ہر وقت قے اور متلی۔ قلفی والے کی آواز سنتی تو تڑپ جاتی اس کو بلاتی لیکن جب کھانے لگتی تو فوراً ہی جی مالش کرنے لگتا۔ سارا دن لیمو چوستی رہتی۔ ایک دن دوپہر کے وقت میں اس کے یہاں گئی۔ کیا دیکھتی ہوں کہ بستر پر لیٹی ہے لیکن ٹانگیں اوپر اٹھا رکھی ہیں میں نے مسکرا کر کہا۔

’’مسز ڈی سلوا اکسر سائز کررہی ہو کیا۔ ‘‘

جھنجھلا کر بولی۔

’’ہم بہت تنگ آگیا ہے۔ یوں ٹانگیں اُوپر کرتا ہے تو ہمارا طبیعت کچھ ٹھیک ہو جاتا ہے۔ ‘‘

ٹھنڈی ٹھنڈی دیوار کے ساتھ پیر لگانے سے اسے کچھ تسکین ہوتی تھی۔ بعض اوقات اس کی طبیعت گھبراتی تھی تو زور زور سے میز کو یا بستر کو جہاں بھی وہ بیٹھی ہو مکھیاں مارنا شروع کردیتی تھی۔ اور جب اس طرح گھبراہٹ کم نہیں ہوتی تھی تو تنگ آکر رونا شروع کردیتی تھی۔ اس کی یہ حالت دیکھ کر مجھے بہت ہنسی آتی تھی۔ چنانچہ وہ تمام تکلیفیں جو مجھ پر بیت چکی تھیں بھول کر اس سے کہا کرتی تھی۔

’’مسز ڈی سلوا جان بوجھ کر تم نے یہ مصیبت کیوں مول لی۔ ‘‘

اس پر وہ بگڑ کر کہتی۔

’’ہم نے کب لیا۔ پانچ برس کے پیچھے سالا یہ ہونے کو ہی مانگتا تھا۔ ‘‘

میں کہتی۔

’’تو مسز ڈی سلوا پانچویں سال تم بنگلور کیوں نہ چلی گئیں۔ ‘‘

وہ جواب دیتی

’’ہم چلا جاتا۔ سچ ہم جانے کو ایک دم تیار تھا پر یہ وار اسٹارٹ ہو گیا۔ ہم وہاں رہتا ہمارا صاحب یہاں رہتا۔ خرچ بہت ہوتا۔ سو یہ سوچ کر ہم نہ گیا اور سالا یہ آفت سر پر آن پڑا۔ ‘‘

شروع شروع میں مسز ڈی سلوا کو یہ آفت معلوم ہوتی تھیں پر اب وہ خوش تھی کہ دوسرا بچہ پیدا ہونے والا ہے۔ قے اور متلی ختم ہو گئی تھی۔ ٹانگیں اوپر کرکے لیٹنے کی اب ضرورت نہیں تھی کیونکہ اس کی طبیعت ٹھیک رہتی تھی۔ یہ سلسلہ صرف پہلے دو مہینے تک رہا تھا۔ اب اسے کوئی تکلیف نہیں تھی۔ ایک صرف کبھی کبھی پیٹ میں اینٹھن سی پیدا ہو جاتی تھی یا بچہ جب پیٹ میں پھرتا تھا تو اسے تھوڑے عرصے کے لیے بے چینی سی محسوس ہوتی تھی۔ مسز ڈی سلوا بالکل تیار تھی۔ چھوٹے چھوٹے فراک سِی کر اس نے ایک چھوٹے سے منے بیگ میں رکھ چھوڑے تھے۔ نہالچے پوتڑے بھی تیار تھے۔ اس کا خاوند لوہے کا ایک جھولا بھی لے آیا تھا۔ اس کے لیے مسز ڈی سلوا نے پرانے تکیوں کے روٹر سے ایک گدا بھی بنا لیا تھا۔ غرض کہ سب سامان تیار تھا۔ اب مسز ڈی سلوا کو صرف کسی ہسپتال میں جا کر بچہ جن دینا تھا اور بس۔ مسٹر ڈی سلوا نے دو مہینے پہلے ہسپتال میں اپنی بیوی کے لیے جگہ بُک کررکھی تھی پانچ روپے ایڈوانس دے دیے تھے تاکہ عین وقت پر گڑ بڑ نہ ہو اور ہسپتال میں جگہ مل جائے۔ مسٹر ڈی سلوا بہت دور اندیش تھا۔ پہلے بچے کی پیدائش پر بھی اس کے انتظامات ایسے ہی مکمل تھے۔ مسز ڈی سلوا اپنے خاوند سے بھی کہیں زیادہ دور اندیش تھی جیسا کہ میں بتا چکی ہُوں اس نے ان نو مہینوں کے اندر اندر وہ تمام سامان تیار کرلیا تھا جو بچے کے پہلے دو برسوں کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ نیچے بچھانے کے لیے ربڑ کے کپڑے فیڈر، چسنیاں، جھنجھنے اور دوسرے جاپانی کھلونے اور اسی قسم کی اور چیزیں سب بڑی احتیاط سے اس نے ایک علیحدہ ٹرنک میں بند کر رکھی تھیں۔ ہر دوسرے تیسرے دن وہ یہ ٹرنک کھول کر بیٹھ جاتی تھی اور ان چیزوں کو اور زیادہ قرینے سے رکھنے کی کوشش کرتی تھی دراصل وہ دن گنتی تھی کہ جلدی بچہ پیدا ہو اور وہ اسے گود میں لے کر کھلائے دودھ پلائے۔ لوریاں دے اور جھوے میں لٹا کرسلائے۔ پانچ برس کی تعطیل کے بعد اب گویا اس کا اسکول کھلنے والا تھا وہ اتنی ہی خوش تھی جتنا کہ طالب علم ایسے موقعوں پر ہُوا کرتے ہیں۔ ہماری بلڈنگ کے سامنے ایک پارسی ڈاکٹر کا مطب تھا۔ اس ڈاکٹر کے پاس مسز ڈی سلواہرروز نوکر کے ہاتھ اپنا قارورہ بھیجتی تھی، کہتے ہیں آخری دنوں میں قارورہ دیکھ کر ڈاکٹر بتاسکتے ہیں کہ بچہ کب پیدا ہو گا۔ مسز ڈی سلوا کا خیال تھا کہ دن پورے ہو گئے ہیں۔ مگر یہ ڈاکٹر کہتا تھا کہ نہیں ابھی کچھ دن باقی ہیں۔ ایک روز میں غسل خانے میں نہا رہی تھی کہ میں نے مسز ڈی سلوا کی گھبرائی ہوئی آواز سنی، پھر دروازہ کھلا اور مسز ڈی سلوا کے کراہنے کی آواز آئی۔ میں نے کھڑکی کھول کر دیکھا تو مسز ڈی سلوا اپنے خاوند کا سہارا لے کر اُترنے والی تھی۔ رنگ ہلدی کی طرح زرد تھا۔ میری طرف دیکھ کر اس نے مسکرانے کی کوشش کی۔ میں نے بڑی بوڑھی عورتوں کا سا انداز اختیار کرکے کہا۔

’’ساتھ خیر کے جاؤ اور ساتھ خیر کے واپس آؤ۔ ‘‘

مسٹر ڈی سلوا نے جب میری آواز سنی تو مسکرا کر اپنے بھورے رنگ کا ہیٹ اتارمجھے سلام کیا۔ میں نے اس سے کہا۔

’’مسٹر ڈی سلوا جونہی بے بی ہو مجھے ضرور خبر دیجیے گا۔ ‘‘

وہ مسکراہٹ جو مسٹر ڈی سلوا کے میلے ہونٹوں پر سلام کرتے وقت پیدا ہو چکی تھی، یہ سن کر اور پھیل گئی۔ سارا دن میرا دھیان مسز ڈی سلوا ہی میں پڑا رہا۔ کئی بار دروازہ کھول کر دیکھا مگر ہسپتال سے نہ تو نوکر ہی واپس آیا تھا نہ مسز ڈی سلوا کا خاوند، شام ہو گئی۔ خدا جانے یہ لوگ کہاں غائب ہو گئے تھے۔ مجھے کچھ دنوں کے لیے ماہم جانا تھا جہاں میری بہن رہتی تھی۔ مجھے لینے کیلیے آدمی بھی آگیا مگر ہسپتال سے کوئی خبر نہ آئی۔ تیسرے روز ماہم سے جب میں واپس آئی تو اپنے گھر جانے کے بجائے میں نے مسز ڈی سلوا کے دروازے پر دستک دی۔ تھوڑی دیر کے بعد دروازہ کھلا کیا دیکھتی ہوں کہ مسز ڈی سلوا میرے سامنے کھڑی ہے۔ مٹکا سا پیٹ لیے میں نے حیرت زدہ ہو کر پوچھا۔

’’یہ کیا؟‘‘

وہ مجھے اندر لے گئی اور کہنے لگی۔

’’ہم کو درد ہوا تو ہم سمجھا ٹائم پورا ہُوا وہاں ہسپتال میں گیا اور جب نرس نے بیڈ پر لٹایا تو درد ایک دم غائب ہو گیا۔ ہم بڑا حیران ہُوا۔ نرس لوگ تو بڑا ہنسا بولا۔ اتنا جلدی تم یہاں کیوں آگیا۔ ابھی کچھ دن گھر پر اور ٹھہرو۔ پیچھے آؤ۔ ہم کو بہت شرم آیا۔ ‘‘

اس کا یہ بیان سن کر میں بہت ہنسی وہ بھی ہنسی۔ دیر تک ہم دونوں ہنستے رہے۔ اس کے بعد اس نے مجھے سارا واقعہ تفصیل سے سُنایا کہ کس طرح ٹیکسی میں بیٹھ کر وہ ہسپتال گئی۔ وہاں ایک کمرے میں اسکے تمام کپڑے اتارے گئے۔ نام وغیرہ درج کیا گیا اور ایک بستر پر لٹا کر اسے نرسیں دوسرے کمرے میں چلی گئیں جہاں سے کئی دفعہ اسے چیخوں کی آواز سنائی دی۔ اس بستر پر وہ چار پانچ گھنٹے تک پڑی رہی اس دوران میں پہلے ایک نرس آئی اس نے اسے نہانے کو کہا۔ نہانے سے فارغ ہوئی تو ایک نرس آئی اس نے اسے انیما دیا۔ انیما دینے کے بعد تیسری نرس آئی جو اس کے انجکشن لگا گئی۔ اس کے بعد ڈاکٹر آئی اس نے پیٹ ویٹ دیکھا تو جھنجھلا کر کہا۔

’’تم کیوں اتنی جلدی یہاں آگیا ہے۔ ابھی گھر جا کر آرام کرو۔ ‘‘

سب نرسیں ہنسنے لگیں۔ وہ پانی پانی ہو گئی۔ کپڑے وپڑے پہن کر باہر نکل آئی جہاں اس کا خاوند کھڑا تھا۔ دونوں کو چونکہ ناامیدی کا سامنا کرنا پڑا تھا اور مسٹر ڈی سلوا نے اس دن کی چھٹی لے رکھی تھی اس لیے وہ ریگل سینما میں میٹنی شو دیکھنے کے لیے چلے گئے۔ مسز ڈی سلوا کو سخت حیرت تھی کہ یہ ہوا کیا پچھلی دفعہ جب اس کے بچہ ہونے والا تھا تو وہ عین موقع پر ہسپتال پہنچی تھی۔ اب اس کا اندازہ غلط کیوں نکلا۔ درد ضرور ہُوا تھا اور یہ بالکل ویسا ہی تھا جو اسے پہلے بچے کی پیدائش سے تھوڑی دیر پہلے ہُوا تھا پھر یہ گڑ بڑ کیوں ہو گئی؟ چھٹے روز شام کو ساڑھے آٹھ بجے کے قریب میں بالکنی میں بیٹھی تھی کہ مسز ڈی سلوا کا نوکر آیا۔ دس روپے کا نوٹ اس کے ہاتھ میں تھا کہنے لگا۔

’’میم صاحب نے چُھٹّا مانگا ہے۔ وہ ہسپتال جارہی ہے۔ میں نے جھپ پٹ دس روپے کی ریزگاری نکالی اور بھاگی بھاگی وہاں گئی۔ میاں بیوی دونوں تیار تھے۔ مسز ڈی سلوا کا رنگ ہلدی کی طرح زرد تھا۔ درد کے مارے اس کا بُرا حال ہورہا تھا۔ میں نے اور اس کے خاوند نے سہارا دیکر اسے نیچے اتارا اور ٹیکسی میں بٹھا دیا۔

’’ساتھ خیر کے جاؤ اور ساتھ خیر کے واپس آؤ۔ ‘‘

کہہ میں اوپر گئی اور انتظار کرنے لگی۔ رات کے بارہ بجے تک میں سیڑھیوں کی طرف کان لگائے۔ بیٹھی رہی۔ مگر ہسپتال سے کوئی واپس نہ آیا۔ تھک ہار کر سو گئی۔ صبح اٹھی تو دھوبی آگیا اس سے پندرہ دھلائیوں کا حساب کرنے میں کچھ ایسی مشغول ہُوئی کہ مسز ڈی سلوا کا دھیان ہی نہ رہا۔ دھوبی میلے کپڑوں کی گٹھڑی باندھ کر باہر نکلا۔ میں دروازے کے سامنے بیٹھی تھی۔ اس نے باہر نکل کرمسز ڈی سلوا کے دروازے پر دستک دی۔ دروازہ کھلا کیا دیکھتی ہوں کہ مسز ڈی سلوا کھڑی ہے مٹکا سا پیٹ لیے۔ میں نے قریب قریب چیخ کر پوچھا: مسز ڈی سلوا۔ پھر واپس آگئیں۔ جب اس کے پاس گئی تو وہ مجھے دوسرے کمرے میں لے گئی۔ شرم سے اس کا چہرہ گہرے سانولے رنگ کے باوجود سرخ ہورہا تھا۔ رک رک کر اس نے مجھ سے کہا۔

’’کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ درد بالکل پہلے کے موافق ہوتا ہے پر وہاں نرس لوگ کہتا ہے کہ جاؤ گھر جاؤ ابھی دیر ہے۔ یہ کیا ہو رہا ہے؟۔ ‘‘

یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ بیچاری کی حالت قابل رحم تھی ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس مرتبہ نرسوں نے اُسے بہت بری طرح جھڑکا تھا۔ حیرت۔ شرم اور بوکھلاہٹ نے مل جل کر اس کو اس قدر قابل رحم بنا دیا تھا کہ مجھے اس کے ساتھ تھوڑے عرصہ کے لیے انتہائی ہمدردی ہو گئی۔ میں دیر تک اس سے باتیں کرتی رہی۔ اس کو سمجھایا کہ اس میں شرم کی بات ہی کیا ہے۔ جب بچہ ہونے والا ہو تو ایسی غلط فہمیاں ہو ہی جایا کرتی ہیں۔ نرسوں کا کام ہے بچے جنانا۔ ان کے پاس آدمی اسی لیے جاتا ہے کہ آسانی سے یہ مرحلہ طے ہو جائے۔ انھیں مذاق اُڑانے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ اور جب فیس وغیرہ دی جائے گی اور ایڈوانس دے دیا گیا ہے تو پھر وہ بے کار باتیں کیوں بناتی ہیں۔ مسز ڈی سلوا کی پریشانی کم نہ ہوئی۔ بات یہ تھی کہ اس کا خاوند دفتر سے دو دفعہ چھٹی لے چکا تھا۔ بڑے صاحب سے لے کر چپراسی تک سب کو معلوم تھا کہ بچہ ہونے والا ہے۔ اب وہ منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا تھا۔ اسی طرح محلے میں سب کو معلوم تھا کہ مسزڈی سلوا دو بار ہسپتال جا کر واپس آچکی ہے۔ کئی عورتیں اس کے پاس آچکی تھیں اور ان سب کو فرداً فرداً اسے بتانا پڑا تھا کہ بچہ ابھی تک پیدا کیوں نہیں ہُوا۔ ہر ایک سے اس نے جھوٹ بولا تھا۔ وہ ایک پکی کرسچین عورت تھی، جھوٹ بولنے پر اسے سخت روحانی تکلیف ہوتی تھی۔ مگر کیا کرتی مجبور تھی۔ ساتویں روز جب میں دوپہر کا کھاناکھانے کے بعد پلنگ پر لیٹ کر قریب قریب سو چکی تھی۔ دفعتاً میرے کانوں میں بچے کے رونے کی آواز آئی۔ یہ کیا؟۔ دوڑ کر میں نے دروازہ کھولا۔ سامنے فلیٹ سے مسز ڈی سلوا کا نوکر گھبرایا ہوا باہر نکل رہا تھا۔ اس کا رنگ فق تھا۔ کہنے لگا۔ میم صاحب، بے بی۔ میم صاحب بی بی۔ میں نے اندر جا کر دیکھا تو مسز ڈی سلوا نیم مدہوشی کی حالت میں پڑی تھی، بے چاری نے اب مزید ندامت کے خوف سے وہیں بچہ جن دیا تھا۔

سعادت حسن منٹو

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
سلیم کوثر کی ایک اردو غزل