- Advertisement -

سیاسی بونگا

ایک کالم از علی عبد اللہ ہاشمی

"سیاسی بونگا”

میں نے وکالت پاس کی اور نیشنل کمیشن فار ہیومن ڈیویلوپمنٹ میں بھرتی ہو گیا۔ ایک دن ابا جی کی کال آئی، بولے "یار واپس آجا تے وکالت کر” میں نے لگی لگائی تقریباً سرکاری نوکری پر تین حرف بھیجے اور 22جون 2008 کو سیالکوٹ کی راہ لی۔ پرانے سیاسی حلیف و رفیق تقریباً سبھی وکالت کر کے کچہری پہنچ چکے تھے۔ چہار سُو مرے کالج ہی تھا یعنی اپنے یار لوگ اپنا راج پاٹ، کسی کا ڈر نہ خوف۔ زندگی کا پہلا فوجداری وکالت نامہ ایک بدماش وکیل کیخلاف دیا اور آدھے منٹ کی گفتگو ہُورا مُکی پر مُنتج ہوئی۔

ان دنوں تحریکِ انصاف ایک تانگہ پارٹی تھی لیکن بِلا شُبہ اسکا سیالکوٹ چیپٹر ملک کے سب سے فعال اور لائق لوگوں پر مُشتمل تھا۔ عمر فاروق مائر، اصغر عطاری، شانِ حیدر زیدی، سلمان چیچی، جلیل برادران اور چند دیگر دوست کمال ورکر کلاس لوگ تھے۔ نہ بڑھتے نہ کم ہوتے مگر ایک ایک دروازہ کھٹکھٹاتے، جس جس بندے پر شک بھی گُزرتا کہ یہ کارآمد ھے اسکے گھر پہنچتے، اگر وہ انٹرسٹ لیتا تو اسکی خان سے ملاقات کراتے اور بہت بہت محنت کرتے۔ مجھے یہ دوست بڑے اچھے لگتے تھے۔ ایک تو صاحبانِ علم تھے، ملکی تاریخ پر اکثریت کو بہت سارا عبور حاصل تھا، بالخصوص شانِ حیدر زیدی جو در حقیقت میرے چھوٹے بھائی کا دوست تھا مجھے دن میں کئی مرتبہ دعوتِ اسلام دیتا۔ اصغر عطاری، سلمان چیچی سمیت سبھی بہت لاڈلے دوست تھے جو ہمیشہ چاہتے تھے کہ بھائی ہمارے ساتھ چلیں۔ میں انہیں ہمیشہ ایک بات کہتا تھا، کہ "عمران خان ایک سیاسی بونگا ھے، میں کیسے اسے لیڈر مان لوں”۔ وکیلوں کی دراصل کوئی جماعت نہیں ہوتی، جہاں انکے وکیل بھائیوں کی بات آئے جماعتیں غائب ہو جاتی ہیں۔ میں نے کبھی انکو جوائین تو نہ کیا لیکن اپنے وکیل بھائیوں کی تھوڑی بہت اخلاقی سپورٹ جاری رکھی۔ بالخصوص جب 2011 میں پاشائی ہوائیں چلیں تو سیالکوٹ کے بڑے بڑے تیس مار خان مجھ غریب کا فون کروا کر ان بانیان میں باعزت اینٹری کے مستحق ٹھہرے۔

عمران خان دنیا میں شعوری آنکھ کھلتے ہی ھم میں سے اکثر کا ہیرو تھا۔ اگر میں یہ کہوں کہ بطور کرکٹر وہ بھٹو صاحب اور بی بی شہید کا بھی ہیرو تھا تو اس میں قطعی مبالغہ نہیں ہوگا۔ شوکت خانم کی تعمیر شروع ہوئی تو میں ناویں جماعت کا طالبِ علم تھا۔ کیتھیڈرل سکول میں بھی خان کی ٹکٹیں آئیں اور ھم نے بیچیں، خان سیالکوٹ آیا تو میں نے میری جیب میں واحد ایک سو روپے اسے ہدیہ کیئے اور ڈرماں والے چوک میں خطاب کے دوران میرا خالی بٹوہ بھی چوری ہوا لیکن کیونکہ وہ ایک لطیف احساس تھا، اسکے لیئے بھرا ہوا بٹوہ بھی جاتا تو ماتھے پر شکن نہ آتی۔ شوکت خانم بنا تو ہر پاکستانی کیطرح میرے اندر بھی ایک سینس آف اونرشپ نے جنم لیا اور خان پر میرے فخر میں اضافہ ہوا۔ خان نے سیاسی جماعت بنائی تو جہاں یہ یقین تھا کہ اس نے غلط کام کیا ھے وہاں مستنصر حسین تارڑ کی الیکشن ٹرانسمیشن کے دوران جتنی فکر اپنی جماعت کی تھی، میانوالی کا ذکر آنے پر اُتنی شدید خواہش یہ بھی تھی کہ جو بھی ہو خان کو الیکشن جیتنا چاہیئے اور اسکی شرمناک ہار کا بہت افسوس بھی ہوا۔

سیاسی آنکھ کھولتے ہی 1996 میں عمران خان نے بیحودہ الزامات اور بازاری زبان کا جسقدر بیباک استعمال شروع کیا، سسٹم میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے کارکنان کی سپورٹ اور اسٹارڈم کا بھوت اس نے اپنے ہاتھوں سے خودی اتار دیا۔ یہاں تک کہ 2008 میں مجھ جیسا نو باڈی جو ایک وقت میں خان کی جھلک کیلئے دیوانہ تھا، منہ مانگے عہدے کے وعدوں پر بھی جھوٹے منہ بھی اسکی ملاقات پر مائل نہ ہو سکا۔ یہ تو بہت بعد میں کھلا کہ اسکی سیاسی و تاریخی تربیت حسن نثار اور ہارون رشید جیسے کرتے رھے مگر بنا اس بات کے معلوم پڑے بھی میں کبھی، ایک لمحے کیلئے بھی خان کو ایک سیاسی بونگے سے زیادہ اہمیت نہ دے سکا۔

پاشائی ہوائیں خان کو لیکر اڑیں تو اقتدار کا ہُما سر پر بِٹھا کے تھمیں، اس دوران جو کچھ عمران خان نے اپنے حقیقی کارکن کیساتھ کیا وہ ہرے بھرے درخت پر لکھ دوں تو میرا ایمان ھے وہ سوکھ کر بدعا بن جائے۔ عمر مائر کی ٹیم خان کی پہلی سوشل میڈیاء ٹیم تھی جس نے خان کا پیغام لوگوں تک پہنچانے کا بیڑہ اٹھایا۔ #ہوپ کے نام سے خان کا ایک بلیک اینڈ وائٹ سکیچ ملک کے کونے کونے میں لگایا گیا، وہ بھی ٹیم مائر کے ایک لڑکے کی کاوش تھی۔ فروری 2013 کے پارٹی الیکشنز میں مائر ضلعی سیٹ بھاری مارجن سے جیتا لیکن میری سفارش پر معتبر ٹھہرنے والا الیکشن کمیشن بِک گیا اور کچہری اسکے دفتر سے ووٹوں سے بھری صندوکڑیاں بندوقوں والے لے گئے۔ یہی نہیں عثمان ڈار کے بڑے بھائی نے ایک نیا الیکشن کمیشن اپوائیٹ کرا کے ایک فیکٹری میں الیکشن رکھوایا مگر کالعدم الیکشن کا پریذائڈنگ افسر مائر گروپ کو ایک دیگر جگہ ووٹ ڈلواتا رہا۔۔ اس پریذائڈنگ افسر سے لیکر حامد خان تک سب لوگوں نے دیہاڑی لگائی اور ہزاروں ووٹوں سے جیتنے والے عمر مائر کو سرمایہ داروں نے تکنیک سے پچھاڑ دیا۔ خان نے وعدہ کیا کہ سیالکوٹ کا الیکشن دوبارہ ہوگا مگر کبھی نہ ہوا۔

حالیہ الیکشن میں بھی خان واحد مائر کے حلقے سے جیتا (حالانکہ مکمل پبلک سپورٹ کے باوجود ڈاروں نے مائر کو ٹکٹ نہیں ملنے دی)۔ باقی سارے ضلعے میں ٹکٹیں نہ ملنے پر ڈار گروپ کے لوگ آزاد کھڑے ہو کر پارٹی کی جڑوں میں بیٹھے۔ آج مائر تحریکِ انصاف کا مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل ھے لیکن یہ وہ مائر نہیں ھے جو تنِ تنہاہ پارٹی پرچم سینے سے لگائے صدر بازار میں ایک ایک دوکاندار کو عمران کے ہاتھ مضبوط کرنے کی دعوت دیتا تھا۔۔ ایک سیاسی بونگے نے شاندار مملکت کا خواب دیکھنے والی آنکھوں کو پتھرا کے رکھ دیا ھے۔ اس نے دولت کے لالچ میں انویسٹروں کو نواز نواز کر پارٹی کارکنان کو خون رلایا اور آج حالت یہ ھے کہ اتحادی چھوڑ پارلیمانی پارٹی (اکثریتی لوٹے) کے اجلاس میں سب مرد و خواتین کے موبائل پرس باھر رکھوا کے میٹنگ کرتا ھے۔ آج اگر غدار ابنِ غدار حماد اظہر کی بجائے #مدنی اور خاندانی لوٹے عثمان ڈار کی بجائے #شانِ_حیدر اسکا منسٹر ہوتا تو اسے وفاداروں کی کمی نہ ہوتی۔

اگر آج کسی کو لگے کہ #سیاسی_بونگے کا ڈاون فال فوج کے کلٹی کھانے کیوجہ سے ھے یا اسکا اپوزیشن تحریک سے کوئی تعلق ھے تو میری نظر میں وہ جاہلِ اعظم ھے۔ بونگے نے اپنی سیاسی قبر 2013 کے پارٹی انتخابات میں کھودی تھی جب اس نے پارٹی کو مضبوط کرنے کا لالی پاپ دیکر اپنے مُخلص ورکر کو کھُڈے لائین لگایا اور سرمایہ داروں کی جیبوں پر ہاتھ صاف کرنا شروع کیا۔ جن لوگوں نے کروڑوں روپے بونگے پر انویسٹ کیئے آج وہ سود سمیت پورا کر رھے ہیں اسی لیئے ملکی معیشت دن بدن ڈوبتی جاتی ھے۔ آج جب اس نے بلاول کی بارش والی بات پر مذاق اڑایا تو گیارہ برس پہلے دیا گیا #سیاسی_بونگے کا لقب عملی صورت میں میرے سامنے آگیا.. میں اپنے لفظوں کو زندہ ہوتے دیکھ کر جہاں بہت ہنسا وہیں مجھے خواب دیکھنے والی آنکھوں (حقیقی تبدیلی کے خواہشمند) سے بڑی شرم آئی۔ انہوں نے اس بے ترتیب جھوٹے کیلئے کیا کیا مغلظات نہیں بکیں، کون کونسی گالیاں ہیں جو خان کی محبت میں انہوں نے برداشت نہیں کیں؟ آج یہ بونگا نقلچی دیکھ کر ان میں سے اکثر تو شرم سے پانی ہو گئے ہوں گے۔

اسکے لیئے بس یہی دو شعر برمحل ہیں۔۔

جب کمینے عروج پاتے ہیں
اپنی اوقات بھول جاتے ہیں
کتنے کم ظرف ہیں یہ غبارے
چند پھونکوں سے پھول جاتے ہیں

علی عبد اللہ ہاشمی

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ایک غزل از نوشی گیلانی