میں بِرہا کی نار جسے ہر پانی راس نہیں
تُو ٹھنڈا میٹھا ہے لیکن مجھ کو پیاس نہیں
سارے سِکّوں پر ہے دونوں جانب تیرا نقش
ایسے میں تو جھگڑا ہی ممکن ہے ٹاس نہیں
کوئی جان سے پیارا رشتہ جب آزار بنے
بس تھوڑا سا ناخن کاٹا جائے ، ماس نہیں
میں نے باغ لگایا اس میں پھول اور پھل تو ہیں
دنیا کے تلوے سہلانے والی گھاس نہیں
کوئی دھڑکن جیسا شخص اچانک چھوڑے ساتھ
غصّہ کر لینا پر اپنے دل کا ناس نہیں
تُو ہے میرے دل سے لپٹی پھولوں والی بیل
خوشبو جیسی بیٹی توُ امّید ہے یاس نہیں
ان آدھی باتوں نے پورے شعر بنائے ہیں
اب جن کے بقیہ آدھے کی بالکل آس نہیں
یہ جو اندر غرّاتے رہتے ہیں ان کو باندھ
دنیا وہ ہڈّی ہے جس پر کوئی ماس نہیں
اس لفظی سیرابی کو بے بس کی چیخ سمجھ
کچھ پیاسوں کو کہنا پڑ جاتا ہے، پیاس نہیں
حمیدہ شاہین