فاخرہ نورین نے جب اپنی ہم زاد سہیلی سے یہ وعدہ کیا
سہیلی! میں تمہارا در لکھوں گی
سلگتی لو کی بانہوں میں
بدن جو ہو گیا ہے سرد۔۔۔۔۔لکھوں گی!
تو گویا اس نے صداقتِ اظہار کا خودسے پیمان کر لیا۔اپنے اندر کی ہمزاد سہیلی اور باہر کی ہم صنف سہیلیوں کے قدرتی جذبوں کا بیان اور جذبوں کی ارزانی کا نوحہ اس کی شاعری میں سما گیا۔شہروں کی بھاگتی دوڑتی زندگی میں بدن کی شاہراہوں پر چلتے ہوئے بے امان جذبے اسکے لفظوں کی پناہ میں آنے لگیاس نے ایک بچے کی حیرت سے سب کچھ دیکھا۔اپنے آپ کو بھی حیرتی نگاہ سے دیکھنے کا فن اس میں موجود ہے۔وہ نہ صرف خودپہ نظر کرتی ہے بلکہ سماج کو بھی اپنی تیز آنچ سوچ پر پگھلا کے رکھ دیتی ہے۔
عشق ہے ماورائے کون و مکاں
حسن اب تک غلام ہے صاحب
اس نے سوچا کہ وابستگی غلامی سے پیوستہ ہے۔تو کیا غلامی سے مفر ممکن ہے!کیا ہم خود اپنے بدن کے غلام نہیں ہوتے؟سماجی رشتوں،اپنی سوچ اور اپنے آدرش کے غلام۔کیا غلامی سکھ بھی دیتی ہے!
ایسے کئی سوالات اسکی شاعری میں سر اٹھاتے ہیں۔پھر فاخرہ اپنی ذات کو رفعت دیتے دیتے وکٹری سٹینڈکے اونچے استھان پر جا پہنچتی ہے،جہاں سے وہ نیچے رہ جانے والوں پر نگاہِ اطمینان ڈال سکتی ہے۔لیکن کیا اطمینان یہاں بھی میسر ہے؟
یہاں نوکیلی چوٹی پر
غضب کی اس بلندی پر
مجھے ان پھولی سانسوں کو ذرا ہموار کرنا ہے
یہاں ہر پل مجھے خود کو
اداسی اور تنہائی سے قربت کے لیے تیار کرنا ہے
فاخرہ نورین کی سوچتی ہوئی شاعری میں بہت سے ایسے مقامات آتے ہیں جہاں وہ اپنی انفرادی سوچ کے بل پر فرد اور سماج پر بامعنی تبصرہ کرتی ہے۔میرا تو یہ خیال ہے کہ اس دنیا میں بسنے والی ہر سوچ قیمتی ہے۔جتنے انسان ہیں اتنے ہی سوچنے کے ڈھب ہیں۔ہر انسان کو زندگی ایک الگ ہی زاویے سے نظر آتی ہے۔وہ زاویہ جو اس کی آنکھوں سے پھوٹتا ہے۔اور آنکھیں تو ہر کسی کی اپنی ہیں! ایک گھر میں پلنے اور ایک سکول میں پڑھنے والے بہن بھائیوں کی بھی سوچیں اپنی اپنی ہوتی ہیں اور مزاج مختلف۔یہاں ہر انسانی تجربہ جو شعر میں ڈھل جائے قیمتی ہے۔اس لیے کہ وہ موجود فکر میں ایک اور ممکنہ انسانی زاویے کا اضافہ کر رہا ہے۔سو فاخرہ نورین نے بھی زندگی سے گزرتے ہوئے کچھ نکات اخذ کیے جنہیں اس نے ذمہ داری سے حوالہ شاعری کردیا۔ویسے بھی مجھے لگتا ہے کہ اس کی نظم ہو یا غزل،زیادہ تر اس کی ذاتی واردات سے اپنا خمیر اٹھاتی ہے۔اس نے شاعری برائے شاعری نہیں کی بلکہ باطن میں اٹھتی آنچ کو شعروں کی حرارت میں رکھ لیا ہے۔یوں اس کی شاعری میں خالص جذبہ بھی ہے اور معاشی و معاسرتی فہم بھی۔محبت کے رشتوں کی پیچیدگی بھی ہے اور مذہبی نظامِِ فکر پر اظہارِ رائے بھی۔
(حیرانی کا ایک تسلسل)
فہمیدہ جنت میں حیراں اور پریشاں گھوم رہی ہے
تم سوچو گے
اس عورت کو جنت میں بھی چین نہیں ہے
وہی جو اس دنیا میں رہ کر پوچھتی تھی وہ
اب بھی سب سے پوچھ رہی ہے
جانبدار خدا کے بندو۔۔۔۔!
(یا ربِ معجزات)
مرے دل کی گواہی ہے
یہ جتنی وحشتیں،یہ خواہشیں
قدرت نے رکھی ہیں
مرے دل میں
یہ اک دن رنگ لائیں گی
کہ ان کا پورا ہونا ہی مناسب ہے
(گوتم۔۔۔ایک تاثر)
وہ سندر سی مہیلا
جو بدن کی آگ میں جلتی ہے
گوتم کو بلاتی ہے
(گناہ و زہد کے منکر)
تمہارے ساتھ کی خاطر
کبھی پرواہ تک نہ کی
گناہوں کی،ثوابوں کی
اس آزادہ روی کے باوجود وہ اپنے گنا ہ و زہد کے منکر سے پوچھتی ہے
مگر جانِ تمنا میں تمہیں کتنا میسر تھی
مجھے،میری محبت کو
مرے تم کو میسر اتنا رہنے کو
ذرا توقیر دے دیتے
کوئی تحریر دے دیتے
یعنی جذبہ بدنی پیوستگی سے آگے چل کر سماجی وابستگی میں بدل جانے کا خواہش مند ہے۔اب فرد کی فردیت پر شدید اصرار کرنے والا کوئی
ما بعدجدیدیہ ہو یا لا یعنیت اور لغویت کا اسیر کوئی وجودیت پسند،اسے سماج اور سماجی رشتوں کی ہیئت و بافت پر بات کرتے ہی بنتی ہے کہ آخری تجزیے میں انسان کائناتِ اصغر ہے اور کائناتِ اکبر کا محض ایک شوریدہ سر ذرہ!
فاخرہ نورین نے بہت سی مختصر نظمیں بھی لکھی ہیں چار پانچ سطروں سے زیادہ کی نہیں۔ان نظموں میں بھی معنی کے دائرے کی تکمیل اور شدتِ احساس کے ساتھ سوچ کو قاری تک منتقل کرنے کا عمل مکمل ہوتا نظر آتا ہے۔بعض نظموں میں جدید شہری زندگی میں سانس لیتے جذبوں کے مناظر رقم ہوئے ہیں۔
رابطہ ختم کر دیا میں نے
میں ترا نام تو نہیں بھولی
تیرا چہرہ بھی یاد ہے بجھ کولی
ہاں تعلق کو توڑنے کے لئے
اک نئی سم خرید لائی ہوں
حقیقت
۔۔۔اور جب خواب سے ہم
جاگے تو
چار سو انیاں تھیں نیزوں کی
گالی
deleteہو گئے ہو
مری memoryسے تم
فاخرہ نورین اس معاشرے کا ایک حساس فرد ہے۔اب تو یہ بات کہنا بھی کلیشے ہو چکا ہے کہ ادب کو زنانہ اور مردانہ ڈبوں میں بند نہیں کیا جا سکتا۔لیکن اس حقیقت سے مفر کس کو ہے کہ فرد،مرد یا عورت بھی ہوتا ہے۔جہاں ایک طرف وہ سماجی تعاملات کو محض ایک فرد کی حیثیت سے دیکھتا ہے وہیں وہ بے شمار معاشرتی عوامل و مظاہر کو صنفی حساب سے دیکھنے پر بھی مجبور ہے۔یوں فاخرہ نورین کی شاعری میں بعض جگہوں پر وہ صنفی حدبندی سے بالا تر ہو کر سوچتی ہے تو کئی نظموں میں وہ عورت بن کر بھی سوچتی ہوئی ملتی ہے۔اور یہ بات قدرتی بھی ہے اور قابلِ قدر بھی۔نسائی طرزِ احساس اور لہجہ ہماری شاعری کا ایک خوبصورت رنگ ہے اور اس رنگ کو فاخرہ نورین نے شوخ کیا ہے۔اس کے ہاں تانیثیت بھی پس منظری رنگ کے طور پر موجود ہے،اور یہ دونوں باتیں خوبصورت ہیں۔
فاخرہ نورین ادبیات کی استاد اور محقق ہیں۔انہوں نے ادب کا بھی خاصا مطالعہ کر رکھا ہے۔وہ اس حقیقت سے خوب آگاہ ہوں گی کہ اظہار کی صفائی،زبان کا تخلیقی استعمال،فنی اور تکنیکی صلابت کسی فن پارے کو شہ پارے کا درجہ دینے کے لیے کس قدر ضروری ہوتے ہیں۔ان کی نظموں اور غزلوں میں اس سمت توجہ کم نظر آتی ہے۔وہ اظہار کے وفور اور روانی میں ادبی محاسن اور فنی خوبصورتیوں سے شاید اغماض برت لیتی ہیں۔اسی وجہ سے ان کی شاعری میں وہ وصف پیدا نہیں ہو سکا کہ اسے ہم عہدِ حاضر کی نمائندہ یا اہم شاعری کے پہلو بہ پہلو رکھ سکیں۔فاخرہ نورین کو اپنی آئندہ شاعری کو چمکانے،تیز کرنے اور احساس کی لو پر خوب پکا کر محکم اورمستحکم کرکے پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر وہ اس طرف توجہ کریں تو ان کی کی شاعری بعض فنی اسقام اور زبان کی کمزوریوں سے پاک ہو سکتی ہے۔مجھے یقین ہے وہ اس طرف ضرور توجہ کریں گی۔یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ ان کا شاعرانہ تخلیقی تجربہ اہم ہے اور اسے عمدہ تر اظہاری صورت میں حوالہ قرطاس ہونا چاہیے۔آخر میں فاخرہ نورین کی غزلوں سے چند اچھے اشعار۔
حسرتِ دید ہو گئی کمیاب
اورنظارہ عام ہے صاحب
ایک پردے نے مجھ کو ڈھانپ لیا
میں نے جب بھی کبھی چاہا،دیکھوں
بھیگ جاتی ہیں اس لیے آنکھیں
تجھ کو برسات اچھی لگتی ہے
مدتوں پہلے قافلہ گزرا
ہے ابھی تک غبار رستے میں
مرا حوالہ مری ذات، میرا فن ہو گا
لے آج تیرے حوالوں سے میں مکرتی ہوں
وہ کہتا ہے کہ میں اس کے مماثل ہو نہیں سکتی
میں خوش ہوں وہ مجھے خودسے جدا تسلیم کرتا ہے
شہزاد نیرّ