لفظوں میں فسانے ڈھونڈتے ہیں ہم لوگ
لمحوں میں زمانے ڈھونڈتے ہیں ہم لوگ
تُو زہر ہی دے شراب کہہ کر ساقی
جینے کے بہانے ڈھونڈتے ہیں ہم لوگ
اک راہِ طویل اک کڑی ہے یارو
افتاد عجیب آ پڑی ہے یارو
کس سمت چلیں کدھر نہ جائیں آخر
دوراہے پہ زندگی کھڑی ہے یارو
اُڑتے پنچھی شکار کرنے والو
گلزار میں گیر و دار کرنے والو
کتنی کلیاں مَسل کے رکھ دیں تم نے
تزئینِ گُل و بہار کرنے والو
ظلمات کو موجِ نور کیسے سمجھیں
پھر برق کو برقِ طور کیسے سمجھیں
مانا کہ یہی مصلحت اندیشی ہے
ہم لوگ مگر حضور کیسے سمجھیں
جب روح کسی بوجھ سے تھک جاتی ہے
احساس کی لَو اور بھڑک جاتی ہے
میں بڑھتا ہوں زندگی کی جانب لیکن
زنجیر سی پاؤں میں چھنک جاتی ہے
احمد فراز