بام و در پہ جڑی اداسی ہے
آج کتنی کڑی اداسی ہے
مجھ سے چھوٹی ہے عمر میں لیکن
مجھ سے قد میں بڑی اداسی ہے
پاوں جھٹکے ہیں جب رقاصہ نے
گھنگرووں سے جھڑی اداسی ہے
میں تو کہتا ہوں دو گھڑی ہنس لیں
اپنی ضد پہ اڑی اداسی ہے
کیا اسے ساتھ لے لیا جائے
راستے میں کھڑی اداسی ہے
میں تری بات مان لوں لیکن
میرے پاوں پڑی اداسی ہے
زلف زنجیر خوشنما ہے مگر
اس کی پہلی کڑی اداسی ہے
ہر نظّارہ اداس ہے شاھد
ہر نظر میں گڑی اداسی ہے
افتخار شاہد