تمہارے ہجر کے ماتم کے واسطے نکلے
جگر کو چیر کے اشکوں کے قافلے نکلے
کِیا ہے بے رخی نے اس قدر نڈھال ہمیں
کہ تیری بزم سے ہم دل کو تھامتے نکلے
مرے جنازے کو کاندھا تو آکے دے جانا
میں چاہتا ہوں جنازہ تو شان سے نکلے
دل ان کے پاؤں میں رکھا کہ وہ نہ جائیں، پر
ستم شعار مرے دل کو روندتے نکلے
وہ مجھے سے ملنے تھے آئے، بنا ملے ہی گئے
یہی گماں ہے مجھے کیا وہ سوچتے نکلے؟؟
شدتِ درد بڑھی جتنی مرے سینے میں
اتنے ابصار مرے منہ سے قہقہے نکلے
احمد ابصار