- Advertisement -

کل میں کہا وہ طور کا شعلہ کہاں گرا

میر تقی میر کی ایک غزل

کل میں کہا وہ طور کا شعلہ کہاں گرا
دل نے جگر کی اور اشارت کی یاں گرا

منظر خراب ہونے کو ہے چشم تر کا حیف
پھر دید کی جگہ نہیں جو یہ مکاں گرا

روح القدس کو سہل کیا یار نے شکار
اک تیر میں وہ مرغ بلند آشیاں گرا

پہنچایا مجھ کو عجز نے مقصود دل کے تیں
یعنی کہ اس کے در ہی پہ میں ناتواں گرا

شور اک مری نہاد سے تجھ بن اٹھا تھا رات
جس سے کیا خیال کہ یہ آسماں گرا

کیا کم تھا شعلہ شوق کا شعلے سے طور کے
پتھر بھی واں کے جل گئے جاکر جہاں گرا

ڈوبا خیال چاہ زنخداں میں اس کے میر
دانستہ کیوں کنوئیں میں بھلا یہ جواں گرا

میر تقی میر

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
میر تقی میر کی ایک غزل