کسی کے واسطے اس طرح گھر لکھا میں نے
کہ خود تو دھوپ رہی اور شجر لکھا میں نے
میں کیسے روکتی بڑھتے ہوئے قدم اپنے
مرے نصیب میں تھا یہ سفر لکھا میں نے
یہ شاعری تو مرے دل کی اک بغاوت ہے
مجھے ہر ایک نے روکا مگر لکھا میں نے
کسی طرف بھی کنارا نظر نہیں آ یا
جدائیوں کو سمندر، اگر لکھا میں نے
بھٹک رہی ہوں نجانے تلاش میں کس کی
نہیں خبر کسے شام و سحر لکھا میں نے
اسے مٹایا کئی بار خوفِ دنیا سے
کبھی جو نام ترا ہاتھ پر لکھا میں نے
مرا یہ جرم، زمانے کے ساتھ چل نہ سکی
کہ پتھروں کی فصیلوں پہ در لکھا میں نے
شبانہ اس پہ بھی جھپٹے عقاب دنیا کے
جو کاغذوں کے کبوتر پہ پَر لکھا میں نے
شبانہ یوسف