خیالی زخم نہ مرہم سے ڈھکنا پڑ جائے
سو احتیاط ، کسی کو بھنک نہ پڑ جائے
کریدنے سے تمھیں روکتا نہیں لیکن
یہ دیکھنا کہ گڑھا دور تک نہ پڑ جائے
نہیں ہے کوئی بھی مخصوص اس گلی کے لیے
یہ جستجو ہے ، جسے بھی بھٹکنا پڑ جائے
یہاں تلک رہا ہموار رابطہ اپنا
اب آگے راہ میں کچ٘ی سڑک نہ پڑ جائے
اسے طلب ہے الاؤ کی خشک جنگل میں
پتہ نہیں مجھے کب تک بھڑکنا پڑ جائے
اب اتنی ترک ِ تعلق پہ سوگواری کیوں
تجھے تو ڈر تھا کہ دنیا کو شک نہ پڑ جائے
نہ مل ضمیر تٌو برسوں کے بعد اب کہ اسے
بھرم نہ پہلی محبت کا رکھنا پڑ جائے
ضمیر قیس