جہاں کی ضد ہے کسی طور بھول جاؤں اُسے
ہزار چاہوں مگر کس طرح بھلاؤں اُسے
مجھے وہ چھوڑگیا، زندگی کے میلے میں
کوئی بتائے بھلا کیسے ڈھونڈ لاؤں اُسے
اُسے یہ شوق کہ مجھ سے نظر چُرا کے چلے
مجھے یہ شوق نظر بھر کے دیکھ پاؤں اُسے
وہ آئینے میں ہے پنہاں بھی اور نمایاں بھی
یہ چاہتا ہے کہ اب ہاتھ بھی لگاؤں اُسے
وہ کیکٹس کی طرح خاردار لگتا ہے
میں سوچتا ہوں کبھی گُل بدن سا پاؤں اُسے
ہزار سوچ کا حاصل وہ اِک پری چہرہ
مگر وہ بُت ہے، خدا کس لیے بناؤں اُسے
وہ موسموں سا بدلتا مزاج رکھتا ہے
سہیل رُوٹھ گیا ہے، چلو مناؤں اُسے
سہیل احمد صدیقی