آپ کا سلاماردو غزلیاتشعر و شاعری

جہاں کی ضد ہے

سہیل صدیقی کی ایک اردو غزل

جہاں کی ضد ہے کسی طور بھول جاؤں اُسے
ہزار چاہوں مگر کس طرح بھلاؤں اُسے

مجھے وہ چھوڑگیا، زندگی کے میلے میں
کوئی بتائے بھلا کیسے ڈھونڈ لاؤں اُسے

اُسے یہ شوق کہ مجھ سے نظر چُرا کے چلے
مجھے یہ شوق نظر بھر کے دیکھ پاؤں اُسے

وہ آئینے میں ہے پنہاں بھی اور نمایاں بھی
یہ چاہتا ہے کہ اب ہاتھ بھی لگاؤں اُسے

وہ کیکٹس کی طرح خاردار لگتا ہے
میں سوچتا ہوں کبھی گُل بدن سا پاؤں اُسے

ہزار سوچ کا حاصل وہ اِک پری چہرہ
مگر وہ بُت ہے، خدا کس لیے بناؤں اُسے

وہ موسموں سا بدلتا مزاج رکھتا ہے
سہیل رُوٹھ گیا ہے، چلو مناؤں اُسے

سہیل احمد صدیقی

سہیل صدیقی

مختصر تعارف: نظم وغزل اور ہائیکو کاشاعر؛ اختصاص ہائیکو گوئی بانی مدیر وناشر ہائیکو انٹرنیشنل و ہم رکاب (The Fellow Rider) (دونوں کثیر لسانی جرائد۔اول الذکر نےپچیس اور مؤخر الذکر نےبائیس زبانوں میں مواد کی اشاعت کا ریکارڈ قائم کیا) 850سےزائداردو/انگریزی تحریریں اور آٹھ مطبوعہ کتب؛ سترہ کتب غیر مطبوعہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button