ہم خانہ خرابوں کو بھلے ٹھیک نہ سمجھو
سائے کو بھی اس دشت میں نزدیک نہ سمجھو
یہ دل میں اتر جائے تو اک کوہ گراں ہے
تم خارِ غمِ ہجر کو باریک نہ سمجھو
گردش کے مظاہر ہیں نہاں سیلِ جنوں میں
وحشت کو فقط عشق کی تحریک نہ سمجھو
تم جھوٹے نوا گر مری خاموش روی کو
اپنے کسی الزام کی تصدیق نہ سمجھو
وہ حسن کوئی۔۔ ساعتِ بے تاب ہے جیسے
وہ ساتھ اگر ہو بھی تو نزدیک نہ سمجھو
روشن ہیں ابھی اور بھی امکان کی راہیں
اتنا بھی شبِ ہجر کو تاریک نہ سمجھو
جس دور کی اقدار پہ برسے ہوں صحیفے
اس دور کی ہر بات کو اب ٹھیک نہ سمجھو
سعید خان