حوالہ
ہَوا وحشی
ابھی زنجیر پاٶں کی ہلا کر لوٹ جاٸے گی
کسی بھی حکم کی تعمیل میں
انکار کے خوشبو بھرے اثبات
شاخوں پر لکھے جانے کا موسم ہے
اندھیری کھڑکیوں میں منتظر آنکھو !
ہَوا وحشی ہوٸی جاتی ہے
اپنے خواب اپنی مٹھیوں میں بند ہی رکھنا
وگرنہ کارکن شوہر تمہارے
خوف کے سایوں میں پروردہ ” ربوچی “
جو ازل سے ہی نمک کی کان کا حصہ رہے ہیں
نوکدار اپنی زبانوں کے سیہ تیشوں سے
( اندر تک )
یہ خود کو چاٹ لیں گے
پھر نمک کی کان میں تادیر بہتے خون کا اک جشن ہوگا
ہاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہی مرقوم ہے تاریخ کی گونگی کتابوں میں
کہ پھر اک دن
اندھیری شب میں یہ سب کچھ ہُوا تھا
اور اب وحشی ہَوا زنجیر کی آواز تک آنے نہیں دیتی
یونس متین