آپ کا سلاماقبالیاتتشریحاتشعر و شاعریقطعات و رباعیات

علامہ اقبال کی ایک رباعی

ایک اردو تحریر از حمیرا جمیل

humaira jameel

خودی کی خلوتوں میں گُم رہا مَیں
خدا کے سامنے گویا نہ تھا مَیں
نہ دیکھا آنکھ اٹھا کر جلوۂ دوست
قیامت میں تماشا بن گیا مَیں

 

معانی: خلوت، تنہائی،خالی جگہ =گم رہا، کھویا ہوا،اوجھل، غائب=گویا، جیسے،مانند، ہوبہو =جلوہ دوست، محبوب حقیقی کا دیدار،خودنمائی، شان و شوکت

شرح: علامہ اقبال نے اس رباعی میں اپنی ذات کو موضوع بنایا ہے اور اپنی ذات کے متعلق ایک خیالی منظر نامہ(وقتی صورتحال) پیش کرنے کی کوشش کی ہے. روزِ محشر سب لوگ اکھٹے تھے اور محبوبِ حقیقی کا جلوہ دیکھنے میں مصروف تھے تو میں اس گھڑی بھی اپنے آپ میں کھویا ہوا تھا اور اس مرحلے پر بھی محبوبِ حقیقی کا جلوہ دیکھنے سے بے نیاز(بے پرواہ، بے غرض) رہا جس کا انجام یہ ہواکہ وہاں جمع لوگوں کے درمیان میری ذات تماشا بن کر رہ گئی. درحقیقت انا کا شکار شخص خود کے علاوہ کسی اور کو قابلِ اہمیت نہیں سمجھتا. وہ ہر وقت اپنی ذات کو ترجیح دینا پسند کرتاہے. یہی بنیادی وجہ ہے کہ محشر کے دن بھی جب اللہ تعالیٰ کے جلوؤں کا اثر ہر جانب ہوگا،انا کا حامل شخص اُس دن بھی اپنی ذات کے اردگرد بھٹک رہا ہوگا. حتیٰ کہ روزِ قیامت گناہ گار بھی اپنے پیدا کرنے والی کی طرف متوجہ ہوگا.

شارح :حمیرا جمیل، سیالکوٹ
رُکن اقبال ریسرچ انسٹیٹیوٹ ،لاہور

حمیرا جمیل

سیالکوٹ سے پی ایچ ڈی اردو سکالر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button