- Advertisement -

حیرتوں کے سلسلے سوز نہاں تک آ گئے

قابل اجمیری کی اردو غزل

حیرتوں کے سلسلے سوز نہاں تک آ گئے

ہم نظر تک چاہتے تھے تم تو جاں تک آ گئے

نا مرادی اپنی قسمت گمرہی اپنا نصیب

کارواں کی خیر ہو ہم کارواں تک آ گئے

ان کی پلکوں پر ستارے اپنے ہونٹوں پہ ہنسی

قصۂ غم کہتے کہتے ہم کہاں تک آ گئے

زلف میں خوشبو نہ تھی یا رنگ عارض میں نہ تھا

آپ کس کی آرزو میں گلستاں تک آ گئے

رفتہ رفتہ رنگ لایا جذبۂ خاموش عشق

وہ تغافل کرتے کرتے امتحاں تک آ گئے

خود تمہیں چاک گریباں کا شعور آ جائے گا

تم وہاں تک آ تو جاؤ ہم جہاں تک آ گئے

آج قابلؔ مے کدے میں انقلاب آنے کو ہے

اہل دل اندیشۂ سود و زیاں تک آ گئے

 

قابل اجمیری

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
قابل اجمیری کی اردو غزل