گنگناتے ہوئے جذبات کی آہٹ پا کر
رُوح میں جاگنے والی ہے کوئی سرگوشی
آکسی خوف میں اُتریں کسی غم کو اوڑھیں
کسی اُجڑے ہوئے لمحے میں سجائیں خود کو
تھام کر ریشمی ہاتھوں میں ہوا کی چادر
رُوح میں گھول لیں تاروں کا حسیں تاج محل
جی میں آتا ہے لپٹ جائیں کسی چاند کے ساتھ
بے یقینی کے سمندر کا کنارہ لے کر
ہم نکل جائیں کسی خدشے کی انگلی تھامے
تیری یادوں کے تلے درد کے سائے سائے
گنگناتے ہوئے جذبات کی آہٹ پا کر
رُوح میں جاگنے والی ہے کوئی سرگوشی
وصی شاہ