- Advertisement -

Dhoom Thee Apni Parsai Ki

دھوم تھی اپنی پارسائی کی
کی بھی اور کسی سے آشنائی کی

کیوں بڑھاتے ہو اختلاط بہت
ہم کو طاقت نہیں جدائی کی

منہ کہاں چھپاؤ گے ہم سے
تم کو عادت ہے خود نمائی کی

لاگ میں ہیں لگاؤ کی باتیں
صلح میں چھیڑ ہے لڑائی کی

ملتے غیروں سے ہو ملو لیکن
ہم سے باتیں کرو صفائی کی

دل رہا پائے بندِ الفت دام
تھی عبث آرزو رہائی کی

دل بھی پہلو میں ہو یاں کسی سے
رکھیے امید دلربائی کی

شہر و دریا سے باغ و صحرا سے
بو نہیں آتی آشنائی کی

نہ ملا کوئی غارتِ ایماں
رہ گئی شرم پارسائی کی

موت کی طرح جس سے ڈرتے تھے
ساعت آن پہنچی اس جدائی کی

زندہ پھرنے کی ہے ہوس حالیؔ
انتہا ہے یہ بے حیائی کی

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ایک افسانہ از سعادت حسن منٹو