Dhoom Thee Apni Parsai Ki
دھوم تھی اپنی پارسائی کی
کی بھی اور کسی سے آشنائی کی
کیوں بڑھاتے ہو اختلاط بہت
ہم کو طاقت نہیں جدائی کی
منہ کہاں چھپاؤ گے ہم سے
تم کو عادت ہے خود نمائی کی
لاگ میں ہیں لگاؤ کی باتیں
صلح میں چھیڑ ہے لڑائی کی
ملتے غیروں سے ہو ملو لیکن
ہم سے باتیں کرو صفائی کی
دل رہا پائے بندِ الفت دام
تھی عبث آرزو رہائی کی
دل بھی پہلو میں ہو یاں کسی سے
رکھیے امید دلربائی کی
شہر و دریا سے باغ و صحرا سے
بو نہیں آتی آشنائی کی
نہ ملا کوئی غارتِ ایماں
رہ گئی شرم پارسائی کی
موت کی طرح جس سے ڈرتے تھے
ساعت آن پہنچی اس جدائی کی
زندہ پھرنے کی ہے ہوس حالیؔ
انتہا ہے یہ بے حیائی کی