دیدنی اک جہان ہے، پر کیا
اُس کے در سے اُٹھائیے سر کیا
اک معمّا ہے گنبدِ بے در
اک کہانی ہے ساتواں در کیا
شہر کا شہر سیلِ آب میں ہے
رہ میں مجھ غریب کا گھر کیا
ایک مجذوب کی ولایت میں
پتھروں سے بچائیے سر کیا
شام آتے ہی اژدھے کی طرح
سرسراتی ہے بادِ صر صر کیا
میرے اُٹھنے سے جاگ اُٹھے گا
کوئی سویا ہوا مُقدر کیا
عمر بھر گردِ رہ گزر کی طرح
کاٹیے اُس گلی کے چکر کیا
روز یادوں کے سائبان تلے
باندھیے آنسوؤں کی جھالر کیا
سر پہ کیوں آسماں مسلط ہے
قرض ہے اس زمیں کے اُوپر کیا
جو بھی اب راستے میں آ جائے
کوہ کیا، دشت کیا، سمندر کیا
پاس دارانِ حرف کے آگے
چل رہی ہے زبانِ خنجر کیا
کوئی کہتا نہیں خدا لگتی
آدمی ہو گیا ہے پتھر کیا
ان لبوں کے سوا بھی ہوتی ہے
کوئی تعریفِ مصرعۂ تر کیا
اس کھلے آسمان کے نیچے
یاد آتا نہیں رساؔ گھر کیا
رسا چغتائی