کمی ہے کون سی گھر میں دکھانے لگ گئے ہیں
چراغ اور اندھیرا بڑھانے لگ گئے ہیں
یہ اعتماد بھی میرا دیا ہوا ہے تجھے
جو میرے مشورے بے کار جانے لگ گئے ہیں
میں اتنا وعدہ فراموش بھی نہیں ہوں کہ آپ
مرے لباس پہ گرہیں لگانے لگ گئے ہیں
وہ پہلے تنہا خزانے کے خواب دیکھتا تھا
اب اپنے ہاتھ بھی نقشے پرانے لگ گئے ہیں
فضا بدل گئی اندر سے ہم پرندوں کی
جو بول تک نہیں سکتے تھے گانے لگ گئے ہیں
کہیں ہمارا تلاطم تھمے تو فیصلہ ہو
ہم اپنی موج میں کیا کیا بہانے لگ گئے ہیں
نہیں بعید کہ جنگل میں شام پڑ جائے
ہم ایک پیڑ کو رستہ بتانے لگ گئے ہیں
اظہر فراغ