بولے منہ سے نہ مسکرائے
آئے مرے غمگسار آئے
دامن بھی نہ ہو جسے میسر
زخموں کو وہ کس طرح چھپائے
عنوان حیات بن گئے ہیں
جو تیری نظر نے گل کھلائے
ہے فرصت زہر خند کس کو
پھولوں کو صبا نہ گدگدائے
زخموں کو وہ چھیڑتے ہیں باقیؔ
لب پر کوئی بات آ نہ جائے
باقی صدیقی