- Advertisement -

بچھڑ کے لوگ جو اپنوں سے ، ٹوٹ جاتے ہیں

ایک اردو غزل از حسن فتحپوری

بچھڑ کے لوگ جو اپنوں سے ، ٹوٹ جاتے ہیں
وہ لوگ اصل میں صدموں سے ٹوٹ جاتے ہیں

پھر اس میں دیر تلک تازگیب نہیں رہتی
وہ سارے پھول جو شاخوں سے ٹوٹ جاتے ہیں

وہ جنکو زوم ہے دریا کو قید کرنے کا
وہی کنارے تو لہروں سے. ٹوٹ جاتے ہیں

اب انکے واسطے پتھر کی کیا ضرورت ہے
ارے یہ دل ہیں، یہ باتوں سے ٹوٹ جاتے ہیں

کبھی نہ رکنا جو آئیں پہاڑ مشکل کے
یہ سب تو پختہ ارادوں سے ٹوٹ جاتے ہیں

زمیں سے رشتہ درختوں کا ٹوٹ جائے تو
ہوا کے چند ہی جھونکوں سے ٹوٹ جاتے ہیں

غریب بچہ کھلونے کو توڑ کر ہے اداس
ارے کھلونے تو بچوں سے ٹوٹ جاتے ہیں

جو جواب بُنتے ہیں، لیکن عمل نہیں کرتے
وہ آنکھ کھلتے ہی خوابوں سے ٹوٹ جاتے ہیں

حسن فتحپوری

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ایک اردو غزل از حسن فتحپوری