- Advertisement -

آسماں گر ترے تلووں کا نظارہ کرتا

ایک اردو نعتﷺ از حسن رضا بریلوی

آسماں گر ترے تلووں کا نظارہ کرتا
روز اک چاند تصدق میں اُتارا کرتا

طوفِ روضہ ہی پہ چکرائے تھے کچھ ناواقف
میں تو آپے میں نہ تھا اور جو سجدہ کرتا

صَرصرِ دشتِ مدینہ جو کرم فرماتی
کیوں میں افسردگیِ بخت کی پرواہ کرتا

چھپ گیا چاند نہ آئی ترے دیدار کی تاب
اور اگر سامنے رہتا بھی تو سجدہ کرتا

یہ وہی ہیں کہ گِرو آپ۔۔ اور ان پر مچلو
اُلٹی باتوں پہ کہو کون نہ سیدھا کرتا

ہم سے ذرّوں کی تو تقدیر ہی چمکا جاتا
مہر فرما کے وہ جس راہ سے نکلا کرتا

دھُوم ذرّوں میں اناالشمس کی پڑ جاتی ہے
جس طرف سے ہے گزر چاند ہمارا کرتا

آہ کیا خوب تھا گر حاضرِ دَر ہوتا میں
اُن کے سایہ کے تلے چین سے سویا کرتا

شوق و آداب بہم گرمِ کشاکش رہتے
عشقِ گم کردہ تواں عقل سے اُلجھا کرتا

آنکھ اُٹھتی تو میں جھنجھلا کے پلک سی لیتا
دِل بگڑ تا تو میں گھبرا کے سنبھالا کرتا

بے خودانہ کبھی سجدہ میں سوئے دَر گِرتا
جانبِ قبلہ کبھی چونک کے پلٹا کرتا

بام تک دل کو کبھی بالِ کبوتر دیتا
خاک پر گر کے کبھی ہائے خدایا کرتا

گاہ مرہم نہیِ زخمِ جگر میں رہتا
گاہ نشتر زنیِ خونِ تمنا کرتا

ہم رہِ مہر کبھی گردِ خطیرہ پھرتا
سایہ کے ساتھ کبھی خاک پہ لوٹا کرتا

صحبتِ داغِ جگر سے کبھی جی بہلاتا
اُلفتِ دست و گریباں کا تماشا کرتا

دلِ حیراں کو کبھی ذوقِ تپش پہ لاتا
تپشِ دل کو کبھی حوصلہ فرسا کرتا

کبھی خود اپنے تحیّر پہ میں حیراں رہتا
کبھی خود اپنے سمجھنے کو نہ سمجھا کرتا

کبھی کہتا کہ یہ کیا بزم ہے کیسی ہے بہار
کبھی اندازِ تجاہل سے میں توبہ کرتا

کبھی کہتا کہ یہ کیا جوشِ جنوں ہے ظالم
کبھی پھر گر کے تڑپنے کی تمنا کرتا

ستھری ستھری وہ فضا دیکھ کے میں غرقِ گناہ
اپنی آنکھوں میں خود اُس بزم میں کھٹکا کرتا

کبھی رَحمت کے تصور میں ہنسی آ جاتی
پاسِ آداب کبھی ہونٹوں کو بخیہ کرتا

دل اگر رنجِ معاصی سے بگڑنے لگتا
عفو کا ذکر سنا کر میں سنبھالا کرتا

یہ مزے خوبیِ قسمت سے جو پائے ہوتے
سخت دیوانہ تھا گر خلد کی پروا کرتا

موت اُس دن کو جو پھر نام وطن کا لیتا
خاک اُس سر پہ جو اُس در سے کنارا کرتا

اے حسنؔ قصدِ مدینہ نہیں رونا ہے یہی
اور میں آپ سے کس بات کا شکوہ کرتا

حسن رضا بریلوی

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ایک اردو نعتﷺ از حسن رضا بریلوی