آنکھوں میں چھپا لیا گیا ہے
منظر تو چُرا لیا گیا ہے
ٹُوٹے ہیں بہت سے خواب ، لیکن
اِک شہر بسا لیا گیا ہے
اب چاہئیے زندگی کی دولت
پیسہ تو کما لیا گیا ہے
وہ شخص کہ جس کو روٹھنا تھا
اس کو بھی منا لیا گیا ہے
خود ہاتھ سے مارنے کی خاطر
دشمن کو بچا لیا گیا ہے
بھاگا بھی نہ جیل سے وہ قیدی
پہرہ بھی اُٹھا لیا گیا ہے
اب دل کہاں دل رہا ہے کیفی
آئینہ بنا لیا گیا ہے
محمود کیفی