اقبالی منظوماتاقبالیاتشعر و شاعری

ذوق و شوق

ان اشعار میں سے اکثر فلسطین میں لِکھّے گئے

ذوق و شوق
(ان اشعار میں سے اکثر فلسطین میں لِکھّے گئے)

’دریغ آمدم زاں ہمہ بوستاں
تہی دست رفتن سوئے دوستاں‘
قلب و نظر کی زندگی دشت میں صُبح کا سماں
چشمۂ آفتاب سے نُور کی ندّیاں رواں
حُسنِ اَزل کی ہے نمود، چاک ہے پردۂ وجود
دل کے لیے ہزار سُود ایک نگاہ کا زیاں
سُرخ و کبود بدلیاں چھوڑ گیا سحابِ شب
کوہِ اِضم کو دے گیا رنگ برنگ طَیلساں
گرد سے پاک ہے ہوا، برگِ نخیل دھُل گئے
ریگِ نواح کاظمہ نرم ہے مثلِ پرنیاں
آگ بُجھی ہُوئی اِدھر، ٹُوٹی ہُوئی طناب اُدھر
کیا خبر اس مقام سے گزرے ہیں کتنے کارواں
آئی صدائے جِبرئیل، تیرا مقام ہے یہی
اہلِ فراق کے لیے عیشِ دوام ہے یہی
کس سے کہوں کہ زہر ہے میرے لیے مئے حیات
کُہنہ ہے بزمِ کائنات، تازہ ہیں میرے واردات
کیا نہیں اور غزنوی کارگہِ حیات میں
بیٹھے ہیں کب سے منتظر اہلِ حرم کے سومنات
ذکرِ عرب کے سوز میں، فکرِ عجم کے ساز میں
نے عربی مشاہدات، نے عجمی تخیّلات
قافلۂ حجاز میں ایک حُسینؓ بھی نہیں
گرچہ ہے تاب دار ابھی گیسوئے دجلہ و فرات
عقل و دل و نگاہ کا مُرشدِ اوّلیں ہے عشق
عشق نہ ہو تو شرع و دِیں بُت کدۂ تصوّرات
صدقِ خلیلؑ بھی ہے عشق، صبر حُسینؓ بھی ہے عشق
معرکۂ وجُود میں بدر و حُنَین بھی ہے عشق
آیۂ کائنات کا معنیِ دیر یاب تُو
نکلے تری تلاش میں قافلہ ہائے رنگ و بُو
جلوَتیانِ مدرسہ کور نگاہ و مُردہ ذوق
خلوَتیانِ مے کدہ کم طلب و تہی کدُو
مَیں کہ مری غزل میں ہے آتشِ رفتہ کا سُراغ
میری تمام سرگزشت کھوئے ہُوؤں کی جُستجو
بادِ صبا کی موج سے نشوونَمائے خار و خس
میرے نَفس کی موج سے نشوونَمائے آرزو
خُونِ دل و جگر سے ہے میری نَوا کی پرورش
ہے رگِ ساز میں رواں صاحبِ ساز کا لہُو
’فُرصتِ کشمکش مدہ ایں دلِ بے قرار را
یک دو شکن زیادہ کُن گیسوے تابدار را‘
لَوح بھی تُو، قلم بھی تُو، تیرا وجود الکتاب
گُنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب
عالَمِ آب و خاک میں تیرے ظہور سے فروغ
ذرّۂ ریگ کو دیا تُو نے طلوعِ آفتاب
شوکتِ سنجر و سلیم تیرے جلال کی نمود
فقرِ جُنیدؒ و بایزیدؒ تیرا جمالِ بے نقاب
شوق ترا اگر نہ ہو میری نماز کا امام
میرا قیام بھی حجاب، میرا سجود بھی حجاب
تیری نگاہ ناز سے دونوں مراد پا گئے
عقل غیاب و جستجو، عشق حضور و اضطراب
تِیرہ و تار ہے جہاں گردشِ آفتاب سے
طبعِ زمانہ تازہ کر جلوۂ بے حجاب سے
تیری نظر میں ہیں تمام میرے گزشتہ روز و شب
مجھ کو خبر نہ تھی کہ ہے علم نخیلِ بے رُطَب
تازہ مرے ضمیر میں معرکۂ کُہَن ہُوا
عشق تمام مصطفیٰؐ، عقل تمام بُولَہب
گاہ بحیلہ می برد، گاہ بزور می کشد
عشق کی ابتدا عجب، عشق کی انتہا عجب
عالمِ سوز و ساز میں وصل سے بڑھ کے ہے فراق
وصل میں مرگِ آرزو، ہجر میں لذّتِ طلب
عینِ وصال میں مجھے حوصلۂ نظر نہ تھا
گرچہ بہانہ جُو رہی میری نگاہِ بے ادب
گرمیِ آرزو فراق، شورشِ ہاے و ہُو فراق
مَوج کی جُستجو فراق، قطرے کی آبرو فراق!

علامہ اقبال

سائٹ ایڈمن

’’سلام اردو ‘‘،ادب ،معاشرت اور مذہب کے حوالے سے ایک بہترین ویب پیج ہے ،جہاں آپ کو کلاسک سے لے جدیدادب کا اعلیٰ ترین انتخاب پڑھنے کو ملے گا ،ساتھ ہی خصوصی گوشے اور ادبی تقریبات سے لے کر تحقیق وتنقید،تبصرے اور تجزیے کا عمیق مطالعہ ملے گا ۔ جہاں معاشرتی مسائل کو لے کر سنجیدہ گفتگو ملے گی ۔ جہاں بِنا کسی مسلکی تعصب اور فرقہ وارنہ کج بحثی کے بجائے علمی سطح پر مذہبی تجزیوں سے بہترین رہنمائی حاصل ہوگی ۔ تو آئیے اپنی تخلیقات سے سلام اردوکے ویب پیج کوسجائیے اور معاشرے میں پھیلی بے چینی اور انتشار کو دورکیجیے کہ معاشرے کو جہالت کی تاریکی سے نکالنا ہی سب سے افضل ترین جہاد ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

Back to top button