- Advertisement -

ذرا دیکھیں تو ہو کیا رہا ہے باہر

لبنیٰ مقبول غنیمؔ کا اردو کالم

"زرا دیکھیں تو ہو کیا رہا ہے باہر”

ہم سب موجودہ لاک ڈاؤن میں اپنے اپنے گھروں میں محصور ہو کر بیٹھے ہوئے تو ہیں لیکن ابھی بھی کراچی کی سڑکوں پر لاک ڈاؤن اپنی اصل شکل میں نظر نہیں آرہا اور یہی صورت حال دوسرے شہروں کی بھی ہے- لوگ ٹولیوں کی شکل میں ٹہلتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں- اس میں زیادہ تعداد بزرگوں کی ہے جو نماز پڑھنے مسجد کے لیے نکلتے ہیں اور پھر مسجد سے باہر خالی سڑکوں پر صرف اس بات کا جائزہ لینے کے لیے دور تک ٹہلتے چلے جاتے ہیں کہ آخر باہر ہو کیا رہا ہے؟؟
پولیس اپنی پیٹرلنگ صحیح کر بھی رہی ہے کہ نہیں؟؟؟
سبزی اور پھلوں کی دکانوں پر پھلوں کی صحیح ترسیل جاری ہے کہ نہیں؟؟؟
لاک ڈاؤن میں قیمتوں کی صورتحال کیا ہے؟؟
کتنے راشن اسٹور ٹھیک سے کھلے ہیں اور ان کے پاس کیا چیز کتنی مقدار میں موجود ہے-
تو جہاں یہ ہدایات دی جا رہی ہیں کہ خدارا گھروں میں رہیں غیرضروری باہر نہ نکلیں تو یہ بزرگ عصر کی نماز کو نکلے اور مغرب پڑھ کر ہی گھر کی راہ لیتے ہیں کہ گھر جا کر حالاتِ حاضرہ کا پورا پروگرام انہوں نے ہی نشر کرنا ہے کہ باہر کی کیا صورتحال ہے-

اس وقت سب سے بڑی مشکل تو ان بزرگوں کو ہی قابو کرنے میں درپیش ہے ۔ جنکی زندگی کا مقصد ہی ایک جگہ چوپال لگا کر دنیا جہان کی باتوں پر سیرِ حاصل گفتگو کرنا اور سیاست پر تبصرہ کرنا ہے ۔اب ان کو کیسے گھر میں روک کر رکھا جائے کیونکہ ڈاکٹروں کے مطابق عمر کے حساب سے ان کو ہی سب سے زیادہ کرونا کا خطرہ ہے ۔ مگر انکو کون سمجھائے اور کیسے روکے؟

اب اگر نوجوانوں کی بات کی جائے تو ان کا یہ حال ہے کہ اگر ان کو ابھی ٹارزن کی کسی نئی مووی میں ٹارزن کا کردار ادا کرنے کے لیے کہا جائے تو
"کیا ہوگیا ہے بھئی؟؟” کہہ کر دو دو فٹ اوپر اچھلنا شروع ہو جائیں گے لیکن موٹر بائیکس پر اپنے پیچھے دو تین اپنے جیسے دوستوں کو بٹھا کر خالی سڑکوں پر جو کرتب دکھا رہے ہیں اس سے ٹارزن کی خیالی روح بھی قبر کے اندر چار چار فٹ اچھل کر اور جگہ کی تنگی کے باعث واپس اپنی جگہ آکر تلملا رہی ہو گی کہ کون لوگ ہو تسی؟؟؟

ان نوجوانوں نے جتنی کرکٹ شاید سارا سال نہیں کھیلی ہوگی وہ اب اس لاک ڈاؤن میں اپنی اپنی گلیوں میں کھیل رہے ہیں- گھر والوں نے غلطی سے اگر کچھ سودا لانے کو کہہ دیا تو اپنے پورے دوستوں کو آدھا کلو ٹماٹر لانے کے لیے ساتھ چلنے کی دعوت واٹس ایپ پر اسٹیٹس لگا کر دی جا رہی ہے کہ یار کون چل رہا ہے میرے ساتھ اماں نے ٹماٹر منگوائے ہیں بریانی پکانے باہر اکیلے جاتے ڈر لگ رہا ہے کورونا کی وجہ سے-

آج لاک ڈاؤن کے دوسرے دن ہم نے اپنے گھر کے باہر کافی چہل پہل دیکھی، اسی میں ایک رشتے دار بھی دکھائی دیے تو جھٹ ان کو کال ملا کر پوچھا کہ
کیا ہوا خیریت تو ہے باہر کیوں نکلے آپ؟؟
تو کہنے لگے….
"بس یہ دیکھنے نکلا تھا کہ باہر کتنا سناٹا ہے-”
ہم نے صدمے کی حالت میں پوچھا
” اور یہ جو اتنے سارے لوگ باہر نکلے ہیں یہ کیا کرنے باہر نکلے ہیں اپنے گھروں سے؟؟ ”
تو کہنے لگے کہ”
وہ یہ دیکھنے باہر نکلے ہیں کہ یہ باقی سب کیوں باہر نکلے ہیں اپنے گھروں سے……”
صدمہ اتنا شدید تھا کہ پھر فون بھی نہ بند کیا جاسکا رشتے دار ہیلو ہیلو کرتے رہ گئے-

اس وائرس کا مقابلہ تو پھر بھی ممکن ہے لیکن اس جہالت کا مقابلہ کیسے کیا جائے، حالات کا جائزہ لینے کے لئے آنے والے اس ہجوم کو وائرس نہیں بلکہ یہ جہالت ہی نہ لے ڈوبے-

اور یہ کیا؟؟ ادھر دیکھئیے تو زرا…..
بچوں کی ٹولیاں….
ایک دوسرے کی بانہیں گردنوں میں حمائل،…..

پیارے بچو!!!! یہ وقت ایک دوسرے کی گردن میں بانہیں ڈالنے کا نہیں بلکہ بہترین دوستی ایک دوسرے سے فاصلہ رکھنے میں ہے، اب تو سمجھ جاؤ اور اپنے اپنے گھروں کو واپس جاؤ-

ارے پیاری بہنوں!!! بچوں کو تمھاری نگہداشت اور ان پر نظر رکھنے کی اس وقت جتنی ضرورت ہے شاید آج سے پہلے کبھی نہ تھی، اپنے جگر کے ٹکڑوں کو ایک پل بھی نظروں سے اوجھل مت ہونے دو- یہ کرونا کا سب سے آسان شکار ہیں-

معصوم دوستو!!!! تم کرکٹ یا فٹبال نہیں کھیل رہے بلکہ اپنی موت کا کھیل کھیل رہے ہو، نہ صرف اپنی موت کا بلکہ اپنے پیاروں اور اپنے دوستوں اور انکی فیملیز کے علاوہ نجانے کس کس کی موت کا کھیل- خدارا کچھ دن کے لیے اپنے دل پر جبر کرلو، کرکٹ زندگی سے بڑھ کر نہیں-
پیارے بزرگو!!!! مؤدبانہ گزارش ہے، یہ وقت باہر حالات کا جائزہ لینے اور مساجد کی رونق بڑھانے کا نہیں بلکہ اپنے گھروں میں رہتے ہوئے ہی زکرِ اللہ کرنے کا ہے-
اس وقت سب سے اہم کام یہ ہو گا کہ آپ کے گھر میں جو بزرگ ہیں انکو محبت سے وقت دیں ۔کیونکہ سب سے زیادہ خطرہ اُن ہی کو ہے۔ بہتر ہو گا کے اُن کا بہت خیال رکھا جائے-
اس وقت پولیس اور رینجرز کا کردار قابلِ تعریف ہے کہ اپنی جانوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے لوگوں کو گھروں تک محدود کرنے کے لیے مستقل کوشاں ہیں لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام بھی ان کا بھرپور ساتھ دیں-

اس وقت ہم سب کو اپنی اپنی انفرادی ذمہ داری سمجھنے کی ضرورت ہے، حکومت ہر چیز کی ذمہ داری نہیں لے سکتی- اپنا اور اپنی فیملی کا سب سے پہلے خیال رکھنے کی ذمہ داری ہم پر ہی عائد ہوتی ہے- ہم سب کو مل کر ایک دوسرے کا ساتھ ایک دوسرے سے دور رہ کر، دیتے ہوئے کرونا کے خلاف جنگ جیتنا ہے-
اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو!!!
آمین ثم آمین یا رب العالمین

لبنیٰ مقبول غنیمؔ

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
سید محمد زاہد کا ایک اردو کالم