- Advertisement -

یہی ہے عشق کہ سر دو مگر دہائی نہ دو

خورشید رضوی کی ایک اردو غزل

یہی ہے عشق کہ سر دو مگر دہائی نہ دو

وفور جذب سے ٹوٹو مگر سنائی نہ دو

زمیں سے ایک تعلق ہے ناگزیر مگر

جو ہو سکے تو اسے رنگ آشنائی نہ دو

یہ دور وہ ہے کہ بیٹھے رہو چراغ تلے

سبھی کو بزم میں دیکھو مگر دکھائی نہ دو

شہنشہی بھی جو دل کے عوض ملے تو نہ لو

فراز کوہ کے بدلے بھی یہ ترائی نہ دو

جواب تہمت اہل زمانہ میں خورشیدؔ

یہی بہت ہے کہ لب سی رکھو صفائی نہ دو

خورشید رضوی

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
خورشید رضوی کی ایک اردو غزل