یہ جو غربت کا مارا لگ رہا ہے
محبت میں بھی ہارا لگ رہا ہے
نجانے آسماں پر کیا ہے روشن
زمیں سے تو ستارا لگ رہا ہے
حقیقت میں ہمارا کچھ نہیں، پر
ہمیں سب کچھ ہمارا لگ رہا ہے
میاں یہ آنکھ طے کرتی ہے ہم کو
کوئی کب کتنا پیارا لگ رہا ہے
کبھی فرصت میں یاد آئیں گے تم کو
ابھی تو دل تمہارا لگ رہا ہے
جاوید مہدی