سائنسی علوم کی ترقی نے ٹیکنالوجی کو زبردست طاقت اور رفتار بخشی ہے۔ جس قسم کے کام پہلے دنوں میں بھی نہیں ہو پاتے تھے وہ ٹیکنالوجی کے ذریعے منٹوں میں کرنا ممکن ہوگیا ہے۔ ٹیکنالوجی کے اشاروں پر سائنس نہایت ہی تیز رفتاری کے ساتھ ترقی کی راہ پر نہ صرف گامزن ہے بلکہ زندگی کے تمام شعبوں میں اس کا اثر دیکھا جاسکتا ہے۔
کمپیوٹر اور اس سے جڑی ٹیکنالوجی سب سے پہلے انگریزی زبان پر اثر انداز ہوئی، وجہ بالکل صاف ہے کہ انگریزی اس کے موجدِوں کی مادری یا تعلیمی زبان تھی۔ آہستہ آہستہ ٹیکنالوجی کے اثرات اردو زبان و ادب پر بھی غالب آئے۔
قدیم زمانے میں درختوں کے نیچے چلنے والے مدرسوں میں زبان دانی اور دیگر علوم سیکھانے کے سیدھے سادے طریقے رائج تھے۔ انسان نے اپنی ذہانت اور قابلیت کے بل بوتے پر ان میں کئی نئے اضافے کیے۔ لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ ہر دور میں دنیا کے مختلف علاقوں کی تہذیبوں کے عروج و زوال کے اسباب میں ٹیکنالوجی کا بھی اپنا ایک الگ کردار رہا ہے۔ پہلے اردو زبان ہر علاقے میں اپنے اپنے طور پر تیار کردہ درسی کتابوں کے ذریعے سیکھائی اور پڑھائی جاتی تھی، لیکن آج ٹیکنالوجی کا اثر اردو زبان و ادب میں ایسا ہو چکا ہے کہ آپ اپنے پاس پڑوس سے لے کر دور دراز کے علاقوں میں پڑھائے جانے والے اور سیکھائے جانے والے اردو کے نصاب اور جدید طریقوں سے انٹرنیٹ کے ذریعے گھر بیٹھے واقف ہو سکتے ہیں۔
گنگا جمنی تہذیب اپنے عروج پر تھی۔ ہندوستان میں آباد دو بڑی قوموں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان بھائی چارہ قائم تھا۔ انگریز اس بھائی چارے کے مخالف تھے اور وہ بارہا ایسی تحریکیں چلاتے تھے جس سے ہند و مسلم یگانگت ٹوٹ جائے۔ ان دونوں قوموں کے درمیان پائے جانے والے باہمی اتفاق اور یک جہتی میں دراڑ آجائے۔
مغل دور کے بعد انگریزی دور حکومت تک بجائے فارسی کے اردو ہی عدالتی اور دستوری زبان تھی۔ لشکری اور بازاری زبان ہونے کے سبب اس کا چلن عوام میں سبھی ہندوستانی زبانوں سے بڑھ کر تھا۔
جدید ٹیکنالوجی کے زمانے میں ایس ایم ایس (SMS)، ای میل (email)، واٹس ایپ (WhatsApp)، فیس بک (Facebook) اور ٹویٹر ( Twitter) وغیرہ کے لیے سوائے انگریزی زبان کے دنیا کی دیگر زبانوں کی طرح اردو والے بھی رومن رسم الخط میں ہی اپنی تحریریں رقم کرتے تھے۔ البتہ اب دیگر زبانوں کی طرح اردو والوں کو بھی کمپیوٹر (Computer)، لیپ ٹاپ(Laptop)، ٹیبلیٹ (Tablet) اور موبائل فون(Mobile Phone) وغیرہ پر اردو صوتیاتی تختہ کلیدی (Phonetic Keyboard) کی مدد سے یونی کوڈ (Unicode) میں اردو لکھنے کی سہولت حاصل ہوچکی ہے۔ اس کے علاوہ اسمارٹ فون (Smartphone) پر اب اردو میں بھی وائس ٹائپنگ (Voice Typing) کی سہولت سے اردو صحافت اور تصنیف و تالیف کے کام میں برق رفتار تیزی آ گئی ہے۔
زمانہ بدلتا ہے تو زمانے کی ترجیحات بدل جاتی ہیں، جس کا اثر انسانی مسائل اور ادراک پر براہ راست ہوتا ہے۔ اردو زبان بھی ان تبدیلیوں سے متاثر ہوئی۔ اردو تنقید کی طرح اردو تحقیق بھی مثبت اور منفی تبدیلیوں سے ہمکنار ہوئی۔ پہلے تحقیقی کام کی رفتار نہایت سست تھی کہ ایک زمانے تک ولی دکنی کو اردو کا پہلا شاعر سمجھا گیا۔ قلی قطب شاہ کے دیوان کی دستیابی نے اسے یکسر بدل کر رکھ دیا۔ آج کل تحقیق کا کام جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ کیا جارہا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ تحقیق کا معیار پست سے پست تر ہوتا جارہا ہے۔ ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سند کے لیے جو مقالے ہماری جامعات میں لکھے جارہے ہیں وہ تحقیق کے معیار پر پورے نہیں اترتے۔
جدید ٹیکنالوجی نے مخطوطات اور حوالہ جاتی کتابوں تک رسائی کو نہایت ہی آسان بنا دیا ہے، لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ انٹرنیٹ اور ویب سائٹس نے سرقے کی راہیں کھول دی ہیں۔ زیادہ تر مقالوں میں بغیر حوالے کے دوسروں کے اقتباسات پیش کرنے کا چلن خطر ناک حد تک عام ہوچکا ہے۔ بس خوشی اس بات کی ہے کہ آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو تحقیق کے اصول و ضوابط کی سختی سے پابندی کرتے ہیں۔ وہ اپنی تحقیق کے ذریعے نئے مسائل، نئے موضوعات اور نئے انکشافات قارئین کے سامنے لاتے ہیں۔ سخت محنت اور ریاضت کرنے والے ایماندار محقیقین کے کام کے سبب ہماری زبان اردو کے کچھ نئے دریچے کھلتے ہیں اور کچھ نئے گوشے منظر عام پر آتے ہیں۔
ٹیکنالوجی کے سبب گھر بیٹھے ہر طرح کے ہر موضوع کے مخطوطات، کتابیں اور رسائل پڑھے جاسکتے ہیں۔ انٹرنیٹ نے پوری دنیا میں ڈیجیٹل انقلاب پیدا کردیا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان سمیت دنیا بھر کے لاکھوں لوگ اردو ویب کا استعمال کررہے ہیں۔
پہلے ہندوستان کے لوگ پاکستان کے اردو اخبارات اور رسائل پڑھنے سے قاصر تھے۔ اسی طرح پاکستان کے لوگ ہندوستان میں شائع ہونے والے اردو اخبارات اور رسائل سے بے خبر تھے۔ لیکن اب کوئی بھی شخص دنیا کے کسی بھی علاقے میں رہتا ہو ویب سائٹس پر اردو اخبارات اور رسائل کی اپنی سہولت کے مطابق ورق گردانی کر سکتا ہے۔ اب تو اردو کے ای اخبار ، ای کتابیں اور ای رسائل کی اشاعت اور سرکولیشن میں روز افزوں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
ٹیکنالوجی اردو کے لیے رحمت ثابت ہورہی ہے۔ پہلے جو لوگ سرکاری، سیاسی یا مذہبی دباؤ میں اردو نہیں سیکھ پاتے تھے یا اردو سیکھنے سے گریز کرتے تھے۔ وہ اب آن لائن میڈیم کے سہارے بڑی تعداد میں اردو سیکھ رہے ہیں۔ اب تو فیس بک، ٹویٹر اور واٹس ایپ جیسے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز پر اردو کے چاہنے والوں کی تعداد روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔ یہاں کوئی رسمی دیوار نہیں ہے، اس لیے لوگ بلا خوف اپنے اور غیروں کے بیانات ایک دوسرے سے شیئر کر رہے ہیں۔
اب سے پہلے بڑے ادیبوں کے یہاں بھی بمشکل ایک آدھ لغت دیکھنے کو ملتی تھی۔ آج کسی لفظ کا املا یعنی، معنی، مترادف، متضاد، مشتق، مصدر یا دنیا کی کسی بھی زبان میں مشینی ترجمہ آسانی سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اردو سے اردو ہی نہیں بلکہ انگریزی، ہندی، عربی اور فارسی میں کئی لغات موجود ہیں۔ یہ لغات بطور ایپس (Apps) دستیاب ہیں۔ جہاں تک آن لائن ترجمہ کا سوال ہے دنیا کی ہر بڑی زبان کا اردو میں اور اردو کا دنیا کی ہر بڑی زبان میں ترجمہ کرنا ممکن ہے۔ البتہ اس ترجمے کا معیار وہ نہیں ہے جس کے ہم خواہاں ہیں۔ اس راہ میں حائل تکنیکی مشکلات بہت جلد دور ہونے والی ہیں۔
مجموعی طور پر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ٹیکنالوجی کے اثرات اردو زبان و ادب پر نہایت ہی خیر اندیش رہے ہیں۔ جن کی مادری زبان اردو ہے، اردو کے تعلق سے ان کے حوصلے اور بلند ہو گئے ہیں۔ جو لوگ روزی روٹی اور نوکری پیشہ کے چکر میں اردو سے ناطہ توڑ بیٹھے تھے، وہ اب بڑی حسرتوں کے ساتھ اردو بولنے ، پڑھنے اور لکھنے لگے ہیں۔اردو جن کی نہ تو مادری زبان ہے اور نہ ہی روزی روٹی اور نوکری پیشہ کا سبب ہے، ایسے غیر اردو داں لوگ اردو کی غزلیں، قوالیاں، مشاعرے، فلمیں، نغمے اور گیت کی محفلوں وغیرہ سے لگاؤ کے سبب اردو سے محبت رکھنے والوں میں شامل ہو گئے ہیں۔ یقیناً مجھے جدید ٹیکنالوجی کے اثرات سے اردو زبان و ادب کا مستقبل روشن تر نظر آرہا ہے۔
ساجد حمید
ایم فل اردو