تیری خوشبو کا پتا کرتی ہے
مجھ پہ احسان ہوا کرتی ہے
شب کی تنہائی میں اب تو اکثر
گفتگو تجھ سے رہا کرتی ہے
دل کو اس راہ پہ چلنا ہی نہیں
جو مجھے تجھ سے جدا کرتی ہے
زندگی میری تھی لیکن اب تو
تیرے کہنے میں رہا کرتی ہے
اس نے دیکھا ہی نہیں ورنہ یہ آنکھ
دل کا احوال کہا کرتی ہے
شام پڑتے ہی کسی شخص کی یاد
کوچہء جاں میں صدا کرتی ہے
دکھ ہوا کرتا ہے کچھ اور بیاں
بات کچھ اور ہوا کرتی ہے
ابر برسے تو عنایت اس کی
شاخ تو صرف دعا کرتی ہے
مسئلہ جب بھی اٹھا چراغوں کا
فیصلہ صرف ہوا کرتی ہے
پروین شاکر