کرے ٹکڑے جو اس غدّار پہ تنقید کرتا ہوں
وطن میں آبسے اغیار پہ تنقید کرتا ہوں
جو معصوموں کے ذہنوں کو ہے کر دیتا پراگندہ
میں ایسے ہر در و دیوار پہ تنقید کرتا ہوں
غریبوں کی جہاں پر بیٹیاں نیلام ہوتی ہیں
میں ایسے حُسن کے بازار پہ تنقید کرتا ہوں
جو محنت پر غریبوں کی محل تعمیر کرتا ہے
میں ایسے شخص کے کردار پہ تنقید کرتا ہوں
جو تیزی سے بدلتی ہے شرافت کو ثقافت کو
میں ایسے وقت کی رفتار پہ تنقید کرتا ہوں
جو ظالم کے مقابل اُٹھ کھڑا ہوتا نہیں اے سوزؔ
میں ایسے لاغر و لاچار پہ تنقید کرتا ہوں
محمد علی سوزؔ