اردو غزلیاتسعود عثمانیشعر و شاعری

نظام شام و سحر سے مفر بھی ہے کہ نہیں

سعود عثمانی کی ایک اردو غزل

نظام شام و سحر سے مفر بھی ہے کہ نہیں

فصیل درد مسلسل میں در بھی ہے کہ نہیں

سواد شام سے نور سحر کی منزل تک

سوائے درد کوئی ہمسفر بھی ہے کہ نہیں

تجھے یقیں نہ آئے تو میری آنکھ سے دیکھ

ترے جمال میں حُسن نظر بھی ہے کہ نہیں

میں ایک لمحہ کیف وصال مانگ تو لوں!

نہ جانے عمر مری اس قدر بھی ہے کہ نہیں

سُلگ رہا ہوں میں جس کے فراق میں کب سے

خبر نہیں ہے کہ اس کو خبر بھی ہے کہ نہیں

تری طرح کے کسی شخص کے انتظار میں ہوں

خبر نہیں یہ ترا انتظار ہے کہ نہیں

سعود عثمانی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

Back to top button