تجسُّس گرہ کھولتا ہے
ترے رو برو لب کُشائی روایت کا حصّہ نہیں
حکمِ لب بستگی تجھ سے منقول تھا
سو،مری پُستکوں میں
مناہی شدہ منطقوں کا کہیں کوئی قصّہ نہیں
یہ عجب منطقے ہیں کہ ان پر
کوئی حرف رکھنے لگیں تو سخن ڈولتا ہے
قلم کا قدم راستہ چھوڑتا ہے
مگر کب تلک حرف زنجیر ہوتے
سو آ جا ! روایت، درایت کے سنگم پہ آ
دیکھ مجھ کو، میں چپ بھی رہوں تو
تجسُّس مرا بے دھڑک بولتا ہے
میں تیری فصیلوں سے سر پھوڑتے
تیری آواز کے راز کو کھولتے کھولتے
اپنا ثِقلِ سماعت لیے
دار سے دل تلک اپنا بگڑا توازُن لیے
تیرے ذرّوں کے اوزان کے سامنے اپنی خِفّت لیے
آج تک میں تجسُّس کی میزاں پہ تُلتا رہا
اب تجسُّس تجھے تولتا ہے
اے مری جُستجو! میں ترا کُوبہ کُو
روتے روتے جہانوں میں رُل جاءوں گا
میں سرابوں سے سیراب ہوتے ہوئے کس جگہ آگیا
تجسُّس مجھے رولتا ہے
اے تلاشِ حسیں ،حُسنِ پردہ نشیں !
تیرے لفظوں کی تعبیر سے تیرے لہجے کی تفہیم تک
تیری آنکھوں کی تفسیر سے تیرے خوابوں کی تجسیم تک
کچھ بھی کُھلتا نہیں ۔۔۔
کچھ بھی کُھلتا نہیں ہے مگرتیرا بندِ قبا ہو کہ ہستی کا عُقدہ
تجسُّس گرہ کھولتا ہے
تجسُّس بہت بولتا ہے
شہزاد نیّرؔ