نیندوں کے جنگل سے ہم نے
خوابوں کی ساری بیلیں کاٹ دی ہیں
پہلے پہلے خواہش کا آنچل تھامے
چلتے رہنا اچھا لگتا تھا
چھاؤں سے ہاتھ چھڑا کر دھوپ میں
جلتے رہنا اچھا لگتا تھا
اک سچے جذبے کی کھوج میں
دھڑکن دھڑکن سنگ ہوا کے بہنا
اچھا لگتا تھا
اور ہوا کب یہ سوچے
کس قریہ جانا ہے
کن گلیوں سے دامن کو بچانا ہے
پیڑوں سے ٹوٹے پیلے پتّوں کی صورت
جب ہم بکھرے تو یہ جانا ہے
کہ بے چہرہ زیست کی کوئی صورت نہ بن پائے گی
خوابوں کے چہرے کتنے بھی دل آویز بنا لیں
زخم ستم کی خو کب چھوڑیں گے
وقت کا مرہم بھی ان پر لاکھ لا لیں
اب تو سانسوں کی آمد سے
یہ بے آباد بدن دُکھتا ہے
شہرِ طلب میں کوئی خواہش ہو یا جذبہ
خاروں کی صورت چبھتا ہے
شبانہ یوسف