سانس لینا بھی مدد گار نہیں ہوتا ہے
ہجر ورنہ کوئی آزار نہیں ہوتا ہے
لوگ آتے ہیں کئی دل میں ، چلے جاتے ہیں
اس زمیں کا کوئی حق دار نہیں ہوتا ہے
یہ تو عادت ہے فقیروں کو دعا کرنے کی
دینے والوں سے ہمیں پیار نہیں ہوتا ہے
ہر نئے لمس کی تاثیر الگ ہوتی ہے
دل کسی زخم سے بے زار نہیں ہوتا ہے
چاہتا ہوں کوئی الزام تراشی نہ کرے
مسکرانا مجھے دشوار نہیں ہوتا ہے
لوگ مفلوج کو بے جان سمجھ لیتے ہیں
ورنہ گریہ کوئی اظہار نہیں ہوتا ہے
جو بھی ملتا ہے اسے درد سنا دیتا ہوں
مفلسی کا تو یہ معیار نہیں ہوتا ہے
ہم غریبوں کے مسائل میں اضافے کے لیے
عید جیسا کوئی تہوار نہیں ہوتا ہے
نی٘ت ِ عشق ذرا سوچ کے ہی باندھ ضمیر
یہ وہ روزہ ہے جو افطار نہیں ہوتا ہے
ضمیر قیس