روش سادہ بیانی میری
ہے یہ تیغ صفہانی میری
نا شناسا کو نہ آئے باور
داستاں اس کی زبانی میری
میری ہستی ہے ممیز بہ عدم
بے نشانی ہے نشانی میری
رخنہ گر ہے مری آزادی میں
ہوس بال فشانی میری
سبق جہل کی تکرار پہ اب
منحصر ہے ہمہ دانی میری
دوستی وضع تن آسانی کی
بن گئی دشمن جانی میری
خاتمہ ہے مری تمہید میں درج
ہے دل آویز کہانی میری
زیرکی دام فریب دل ہے
ہے تحیر نگرانی میری
دل ہو ساقی لب دریا ساغر
سہل ہے پیاس بجھانی میری
صبح طفلی ہے بڑھاپا میرا
شام پیری تھی جوانی میری
ایک چکر ہے بشکل گرداب
بند برپا ہے روانی میری
وجہ باقی مرے معنی کو سمجھ
صورت البتہ ہے فانی میری
بزم کثرت کا تماشائی ہوں
وحدت صرف ہے بانی میری
اسماعیلؔ میرٹھی