- Advertisement -

اُس کے نام ۔ جسے تاریکی نگل چکی

انجلاء ہمیش کی ایک اردو نظم

اُس کے نام ۔ ۔ جسے تاریکی نگل چکی

کون پڑھ سکتاہے باطن کو!

کون چھوُسکتاہے آنکھوں کی ویرانی کو ۔ ۔

کون دیواروں پہ مرتی دھوپ کو اپنے اندر اُتارسکتاہے

جب حواس کوڑھ زدہ ہوجائیں

تب جدائی کے زخم سے من اجنبی ہوجاتاہے

وہ میری آوا زکے لمس سے بہت دور ہے

وہ کونسی بنجر زمین ہے

جہاں میرے کسی احساس ، کسی کیفیت کی رسائی نہیں ہوتی

بے تحاشہ چیخ میرے اندر جمع ہے

محبت کس کس طرح سے مذاق بنتی ہے

خدا نے ہر بار میرے دل کو آزمایا

یہ میری خود کلامی ہے،جو مجھے زندہ رکھے ہوئے ہے

ورنہ مجھے مارنے والوں نے

میر امن خالی کردیاتھا

اُس نے خاموشی کو اپنا ہتھیار بنایا

اور اُس ہتھیار سے

فریاد کرنے والے کی روح کو زخمی کردیا

وہ جانتاہے

تشدد کس کس طرح سے کیا جاسکتاہے

وہ بیزار ہوگیا اُس آواز سے

جو روک رہی تھی اُسے اندھیروں میں جانے سے

افسوس

وہ کھوگیا

اُسے تاریکی نگل چکی ہے

انجلاء ہمیش

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
احمد ہمیش کی اردو نظم