نچلے درجے کی قناعت پسندی
ہم کہ خاموش تھے
اپنے پیچیدہ رازوں میں ڈوبے ہوٸے
کتنے مدہوش تھے
جب کبھی اک خلش دل میں جاگی کبھی درزِدیوار سے
اک نیا خوف کمرے میں داخل ہوا
سب دھواں ہوگیا
ہم کہ کمزور تھے
تالیاں پیٹتے
پارٹی پرچموں کے منی ایچروں، ٹوپیوں اور رومالوں کے ٹھیبے پہ بیٹھے رہے
اپنے لیڈر کی بیٹی کو تکتے رہے
اور ہنستے رہے
ملک چلتا رہا________پر ہمیں تو کسی نے دیا کچھ نہیں
ہم کیوں آگے بڑھیں؟
ہم تو کمزور تھے
ہم تو خاموش تھے
کتنے مدہوش تھے
عادل وِرد