"سرکس کے شیر”
کنفیوشس نے کہا تھا کہ
"ریاست کو بدلنے سے پہلے خود کو بدلو’ ریعت خودبخود بدل جائے گی۔”
آج کل پاکستان بالخصوص کراچی سیلاب کی صورتِ حال سے گزر رہا ہے اور اس شہر کے لوگ اب سیاسی نمائندے اور دوسرے اداروں پر اس شہر کی ناقص صورتِ حال کا ملبہ ڈال رہے ہیں۔
جب میں اپنے ملک کو دیکھتا ہوں تو زیادہ تر مجھے سرکس کے شیر لگتے ہیں۔ یعنی وہ شیر جو ایک پنجرے میں قید ہو اسے کسی قسم کا خوف نہیں ہوتا نہ کسی چیز کی فکر نہیں ہوتی۔ ایک اپنی زندگی آرام دہ زون میں گزار رہا ہوتا ہے۔ اسے اس کا مالک تین وقت کا کھانا دے دیتا ہے۔ نہ اسے موسم کی تبدیلیاں متاثر کرتی ہیں نا اسے باہر ہونے والی تبدیلیوں سے کوئی فرق پڑتا ہے۔ وہ بس ہر روز تماشہ دکھا کر اپنے پنجرے میں واپس چلا جاتا ہے۔ بس ایک چیز جو اسے پریشان کرتی ہے وہ یہ ہے کہ اسے روزانہ اپنے مالک کے اشاروں پر کرتب دکھانا ہوتا ہے۔ پھر جب وہ پنجرے میں بند ہوتا ہے تو بچے بھی اس کی دم سے کھیلتے ہیں۔
کیا ہم سب سرکس کے شیر نہیں ہیں؟ ہم سب بھی اپنے کمفرٹ زون میں رہنا چاہتے ہیں۔ اگر کوئی خرابی اپنے ملک یا شہر میں ہو جائے تو ہم اپنے مالک کے خلاف ایک چارج شیٹ بنا لیتے ہیں۔ جیسے آج کل کراچی شہر کے حالات پر میرے شہر کے لوگوں نے حکومت کے خلاف ایک چارج شیٹ بنا لی ہے۔ بس پھر کیا ہو گا کچھ کمیٹیاں بنیں گی کچھ بیانات آئیں گے اور کچھ وقت بعد ہم کسی اور مسئلے کی طرف راغب ہو جائیں گے۔ لیکن عوام وہی سرکس کے شیر والی زندگی گزاریں گے اور جو رقز کرتے ہیں وہی کریں گے۔ ٹوٹی سڑکوں کا رونا روئیں گے نالوں پر غیر قانونی تجاوزات اور گلیوں میں پڑی گندگیوں کے گلے کریں گے لیکن خود کچھ نہیں کریں گے۔ کیونکہ کچھ کرنے کے لیے روزانہ سے ہٹ کر کچھ کرنا ہوگا۔ ہم سب ریاست کو بدلنا چاہتے ہیں لیکن خود کو بدلنا نہیں چاہتے۔ ہم کہتے ہیں کہ یہ سیاستدان چور ہیں ادارے ناکام ہیں پولیس رشوت لیتی ہے۔ پاکستان میں کوئی کام رشوت کے بغیر نہیں ہوتا۔ میرٹ نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ یہاں ملاوٹ ہے بھتہ خوری ہے کرپشن ہے۔ غرض میرے ملک پاکستان میں ہر قسم کی برائی ہے۔ تو بھائی تم کیا کر رہے ہو؟ پھر جواب آتا ہے میرے ایک ٹھیک ہونے سے کیا ہوگا؟
اگر علامہ اقبال یا قائد اعظم بھی یہی سوچتے کہ ہمارے پاکستان کا خواب دیکھنے سے کیا ہوتا ہے تو آج شاید پاکستان بھی نہ ہوتا۔ آج ہمارے ملک کا نوجوان باہر کسی ملک میں جا کر ہر گھٹیا سے گھٹیا کام کرنے پر بھی آمادہ ہے لیکن اپنے ملک کے فرسودہ نظام کو بدلنے کے لیےکوئی جدوجہد کرنے کو تیار نہیں۔ اس شیر کی طرح جو جنگل میں آزاد گھومتا ہے جسے شاید یہ تو نہیں پتا کہ آج اسے کتنے وقت کا کھانا ملے گا لیکن اسے اتنا پتا ہے کہ وہ آزاد ہے اور
کسی کے اشاروں کا محتاج نہیں ہے۔ شاید ہم اپنے ملک کے فرسودہ نظام سے مایوس ہو گئے ہیں اور ایک قوم کی بجائے انفرادی سوچ مسلط کر لی ہے۔پاکستان میں ہونے والی ہر برائی اور اقربا پروری سے خود کو بری الزمہ قرار دے دیا ہے۔ اور آج کا پاکستانی تو صرف اپنی زات یا بس کسی دوسرے ملک جانے تک محدود ہو گیا ہے۔
حالیہ بارشوں نے کراچی کو کھنڈر بنا دیا ہے۔ یقیناً اس کی بڑی زمہ داری کراچی کی ایڈمنسٹریشن اور وہاں موجود حکومت پر ہے۔ لیکن کیا کراچی کا ہر شہری اپنے آپ کو اس زمہ داری سے بری الذمہ سمجھتا ہے؟ کیا ہم نے کراچی شہر کق وہ کچھ دیا ہے جس کی اس کو ضرورت ہے؟ کراچی کی سڑکوں پر کچرے کے ڈھیر کس نے لگائے؟ یہ غیر قانونی تجاوزات کے مالک کون ہیں؟ ہم صرف اپنے گھر کو محفوظ بنا کر سکون کی نیند نہیں سو سکتے۔ اگر سڑکیں محلے اور چوراہے صاف نہیں ہیں تو دیکھ لیں ہمارے گھر بھی غیر محفوظ ہیں۔ ڈیفنس سے لے کر کچی آبادی تک سب کچھ درہم برہم ہو گیا۔ اس بارش نے ناصرف مالی نقصان کیا بلکہ یہ بھی سکھایا کہ اب بھی وقت ہے اپنے شہر کو سنبھال لو۔ ورنہ ہماری آنے والی نسلیں یا تو اس کھنڈر نما باقیات میں اپنا مستقبل ڈھونڈیں گی یا تو دیارِ غیر میں ایک سرکس کے شیر کی طرح زندگی گزار رہی ہو گی۔
کاش جس طرح دن اور رات کا بہت بڑا حصہ ہم اپنی زات اور خواہشات کی تکمیل میں صرف کرتے ہیں کاش کچھ وقت معاشرے کی بھلائی اور اپنی صلاحیتوں کا کچھ حصہ دوسروں کی بھلائی کے لیے صرف کریں تو ہم پھر سے ایک آزاد اور خود مختار قوم بن کر ابھر سکتے ہیں۔
محمد اشفاق