اردو نظمپروین شاکرشعر و شاعری

نہ کوئی عہد، نہ پیمان

پروین شاکر کی ایک اردو نظم

نہ کوئی عہد، نہ پیمان

نہ کوئی عہد، نہ پیمان
نہ وعدہ ایسا
نہ تیرا حُسن ہی ایسا کوئی انگشت تراش
نہ میرے ہاتھ میں تاثیرِ زلیخائی ہے
رقص گہ ہے یہ جہاں اور نہ میں سِنڈریلا ہوں
نہ تُو شہزادہ ہے
ہم تو بس رزم گہِ ہستی میں
دو مبارز دِل ہیں
اِس تعلق کا کوئی رنگ اگر ہے تو حریفانہ ہے
ایک ہی تھال سے چُننی ہے ہمیں نانِ جویں
ایک ہی سانپ کے منہ سے ہمیں من چھیننا ہے
اور اس کشمکشِ رزق میں موہوم کشائش کی کلید
جس قدر میری قناعت میں ہے
اتنی تیری فیاضی میں
میں تیری چھاؤں میں پروان چڑھوں
اپنی آنکھوں پہ تیرے ہاتھ کا سایہ کر کے
تیرے ہمراہ میں سُرج کی تمازت دیکھوں
اس سے آگے نہیں سوچا دل نے
پھر بھی احوال یہ ہے
اِک بھروسہ ہے کہ دل سبز کئے رکھتا ہے
ایک دھڑکا ہے کہ خوں سرد کئیے رہتا ہے

پروین شاکر

سائٹ ایڈمن

’’سلام اردو ‘‘،ادب ،معاشرت اور مذہب کے حوالے سے ایک بہترین ویب پیج ہے ،جہاں آپ کو کلاسک سے لے جدیدادب کا اعلیٰ ترین انتخاب پڑھنے کو ملے گا ،ساتھ ہی خصوصی گوشے اور ادبی تقریبات سے لے کر تحقیق وتنقید،تبصرے اور تجزیے کا عمیق مطالعہ ملے گا ۔ جہاں معاشرتی مسائل کو لے کر سنجیدہ گفتگو ملے گی ۔ جہاں بِنا کسی مسلکی تعصب اور فرقہ وارنہ کج بحثی کے بجائے علمی سطح پر مذہبی تجزیوں سے بہترین رہنمائی حاصل ہوگی ۔ تو آئیے اپنی تخلیقات سے سلام اردوکے ویب پیج کوسجائیے اور معاشرے میں پھیلی بے چینی اور انتشار کو دورکیجیے کہ معاشرے کو جہالت کی تاریکی سے نکالنا ہی سب سے افضل ترین جہاد ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button