سیلاب سچ ہے اور در و دیوار خوب ہیں
آنسو کے آگے ثابت و سیّار خواب ہیں
ہر مرنے والی آنکھ سے آواز آتی ہے
دو چار خواب ہیں ابھی دو چار خواب ہیں
جو عُمر جی رہا ہُوں مَیں اس عمر میں مجھے
تعبیر سے زیادہ مدّد گار خواب ہیں
یہ ٹھیک ہے کہ خواب خدا دیکھتا نہیں
لیکن خدا کے آئینہ بردار خواب ہیں
ہونی کو دیکھتا ہُوں میں ہونے سے پیشتر
مجھکو تو یوں بھی باعثِ آزار خواب ہیں
خوابوں کے ساتھ سمت بدلتا ہے آدمی
اس کشتیء سفال کے پتوار خوب ہیں
ویران خاکداں مری ویران آنکھ ہے
مسمار بستیاں مرے مسمار خواب ہیں
وہ جسم ہے کہ کوئی طلسماتی اسم ہے
وہ خدّو خال ہیں کہ پُراسرار خواب ہیں
رونے سے رُل نہ جائیں زمانے پہ کُھل نہ جائیں
یعنی ہمارے ضبط کا معیار خواب ہیں
شاہدؔ نئے چراغ پُرانے مزار پر
سوئے ہُوئے وجُود کے بیدار خواب ہیں