اب اپنا اختیار ہے چاہے جہاں چلیں
A journey is best measured in friends rather than miles
Tim Cahill
سفر کی کامیابی کا بہترین پیمانہ سنگِ میل نہیں دوست ہیں
ٹم کاہل
اسلام آباد کا سفر سوتے جاگتے کا قصہ بن کر گزر گیا۔
ہم تقریباً پونے سات بجے فیض آباد بس سٹاپ پر پہنچے اور ایک ٹیکسی میں سوار ہو کر پیرودھائی کا رخ کیا۔ گلگت کے لئے سیٹیں بک کروانا ہماری ذمہ داری تھی۔ ناردرن ایریا ٹرانسپورٹ کمپنی (ناٹکو) کی کاؤنٹر کلرک نے پیشہ ورانہ مسکراہٹ کے ساتھ اطلاع دی کہ گلگت جانے کے لیے پہلا ٹائم ایک گھنٹہ قبل روانہ ہو چکا ہے اور دس بجے والے ٹائم کی بکنگ جاری ہے۔ ہم نے شام کے وقت روانہ ہونے والے کسی نان اے۔ سی ٹائم میں بکنگ کی فرمائش کی۔ اُس نے یہ تشویش ناک اطلاع فراہم کر کے پریشان کر دیا کہ گلگت کے لیے ناٹکو کی نان اے۔سی بس سروس ایک سال پہلے ختم کر دی گئی تھی،آج کل صرف اے۔سی بسیں دستیاب ہیں ۔ گلگت کے لیے کئی پرائیویٹ کمپنیاں اے۔سی اور نان اے۔سی بس سروس مہیا کرتی ہیں ، لیکن افواہ ہے کہ ان کی گاڑیاں آرام دہ نہیں ہوتیں ۔
بھٹہ صاحب سے رابطہ کیا گیا۔ وہ بہ خیر و عافیت محو سفر تھے اور اُن کا اندازہ تھا کہ زیادہ سے زیادہ تین گھنٹے تک راولپنڈی پہنچ جائیں گے۔
عرفان کو فون کرنے کی کوشش کی گئی تو کمپیوٹر نے فرمایا کہ آپ کے مطلوبہ نمبر سے فی الحال جواب موصول نہیں ہو رہا،تھوڑی دیر بعد دوبارہ کوشش کریں ۔
اس غیر یقینی صورتِ حال اور عرفان کی غیر حاضری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے اور طاہر نے فیصلہ کیاکہ خواہ مخواہ پریشان ہونے کی بجائے چند گھنٹے آرام کر لیا جائے تاکہ سفر کی تھکاوٹ دور ہو سکے۔ ہم نے ناشتے کا پروگرام ملتوی کیا، بس سٹینڈ کے مین گیٹ سے باہر درمیانے درجے کے ہوٹل میں کمرے حاصل کیے، کاؤنٹر کلرک سے درخواست کی کہ دو گھنٹے بعد جگا دیا جائے اور لمبی تان کر سو گئے۔
میری آنکھ دروازے پر دستک کے بجائے … کوئی شہری بابو دل لہری بابو … کی میوزیکل ٹون سے کھلی۔یہ طاہر کے موبائل کی گھنٹی تھی اور تکیے کے نیچے شور مچانے کے باوجود اس کے خراٹوں کا تسلسل توڑنے میں ناکام رہی تھی۔ میں نے کال وصول کرنے کے لئے فون اُٹھایا اور سکرین پر نظر آنے والا ٹائم دیکھ کر حیران رہ گیا۔کاؤنٹر کلرک شاید ہماری ہدایت بھول گیا تھا اور آرام کا وقفہ دو کے بجائے تین گھنٹے طویل ہو چکا تھا۔فون پر بھٹہ صاحب تھے اور اطلاع دینا چاہتے تھے کہ کلر کہار پہنچ چکے ہیں ۔
’’کلر کہار؟آپ دس بجے راولپنڈی پہنچنے والے تھے۔‘‘ میں نے حیرانی کا اظہار کیا۔
’’میں آپ سے پہلے راولپنڈی پہنچنا چاہتا تھا،لیکن نا ہنجار بس میری خواہش کا احترام نہیں کر رہی۔جگہ جگہ رکتی اور پنکچر لگواتی ہوئی چل رہی ہے۔ اجازت ہو تو ایک حسبِ حال شعر اگل دوں ؟ کافی دیر سے اٹکا ہو ا ہے۔‘‘
’’جی … ارشاد بلکہ مکرر ارشاد۔‘‘ مجھے خوشی ہوئی کہ بھٹہ صاحب تیرہ چودہ گھنٹے کے سفر کے بعد بھی ہشاش بشاش تھے۔
خرامِ ناز اور ’’بس‘‘ کا خرامِ ناز کیا کہنا
مجھے سارا جہاں گھوما ہوا محسوس ہوتا ہے
بھٹہ صاحب نے گنگناتے ہوئے قتیل شفائی کے اشعار گڈ مڈ کئے۔
’’سارے جہاں کو بے شک گھومنے دیں ، خود گھومنے سے پرہیز کریں اور جلد از جلد پیرودھائی پہنچ کر فون کریں ۔‘‘
’’عرفان وغیرہ سے رابطہ ہوا؟‘‘
’’ابھی تک تو نہیں ہوا۔‘‘
’’کیوں ؟‘‘
بھٹہ صاحب کی کیوں نے احساس دلایا کہ فیصل آبادی گروپ کی آمد میں بہت زیادہ تاخیر ہو چکی ہے۔فیصل آباد وہاڑی کی نسبت راولپنڈی کے قریب ہے، وہ لوگ صبح کی نماز کے بعد سفر شروع کرتے تب بھی اب تک راولپنڈی پہنچ کر موبائل فون پر رابطہ کر چکے ہوتے۔ سوال یہ تھا کہ وہ پہنچے نہیں یا ہمیں بھول کر آگے روانہ ہو گئے ہیں ؟
میں نے عرفان کو فون کیا۔
عرفان نے سلام کا جواب دینے کے بعد جو ’’خار افشانی‘‘ کی وہ دیانتر پاس ٹریک کے لئے ہیرو شیما پر گرائے جانے والے بم سے کم تباہ کن نہیں تھی۔
’’ڈاکٹر صاحب معذرت خواہ ہوں لیکن میں آ نہیں سکتا۔ ‘‘
’’یہ کیا مذاق ہے؟ ہوش میں تو ہیں آپ؟ ‘‘ میں بوکھلا گیا۔
’’آئی ایم سوری،یہ مذاق نہیں مجبوری ہے۔‘‘
’’مجبوری کو گولی ماریں اور فوراً راولپنڈی پہنچ جائیں ۔ طاہر اور بھٹہ صاحب صرف آپ کی وجہ سے دیانتر پاس ٹریک کے لئے تیار ہوئے ہیں ، اس اطلاع پر میرا تیا پانچہ کر دیں گے۔‘‘ میں نے کنکھیوں سے طاہر کی طرف دیکھتے ہوئے دبی آواز میں کہا۔ وہ فی الحال آنکھیں کھولنے کے موڈ میں نہیں تھا۔
’’نہیں آ سکتا ناں ۔ آفس میں تھوڑی گڑ بڑ ہو گئی ہے۔‘‘
’’کیا گڑ بڑ ہو گئی ہے؟ ٹاؤن پلاننگ کے نقشوں کی جگہ ہیروئن بننے لگی ہے؟‘‘ میں نے جھلائے ہوئے لہجے میں سوال کیا۔
’’خدا کے لئے اتنی ہولناک قسم کی بد دعائیں نہ دیں ۔حکومتی اداروں میں اس قسم کے معاملات چلتے ہی رہتے ہیں ۔آڈٹ کا کوئی مسئلہ ہے۔ڈائریکٹر صاحب نے رات گیارہ بجے اطلاع دی کہ میری چھٹیاں منسوخ کر دی گئی ہیں ۔میں اُسی وقت سے افسرانِ بالا کی منت سماجت کر رہا ہوں ۔ اجازت نہیں مل رہی۔‘‘
’’آپ کو اندازہ ہے کہ آپ راولپنڈی نہ پہنچے تو ہم آپ کو اور آپ کے افسرانِ بالا کو کتنی اور کس قسم کی بد دعائیں دیں گے؟‘‘
’’یقین کریں آفس میں انتہائی ہنگامی صورتِ حال پیدا ہو چکی ہے۔‘‘
’’شام تک آفس کے معاملات نمٹا کر راولپنڈی پہنچ جائیں ۔ گلگت کے لیے کل کا پروگرام بنایا جا سکتا ہے۔ ‘‘
’’یہ مسئلہ ایک دن میں ختم نہیں ہو گا۔ تین چار دن لگیں گے۔‘‘
’’آپ کی ٹیم کے باقی اراکین راولپنڈی پہنچ چکے ہیں ؟‘‘
’’وہ؟ … وہ مختلف وجوہات کی بناء پر پہلے ہی انکار کر چکے ہیں ۔‘‘
’’مجھے لگتا ہے آپ کا دماغ چل گیا ہے۔اتنی اہم اطلاعات آپ ہمیں راولپنڈی پہنچنے کے بعد دے رہے ہیں ؟ ‘‘ غصے کی شدت سے میری آواز تڑخنے لگی۔
’’مجھے سخت افسوس ہے۔میرا خیال تھا وہاڑی میں اطلاع مل گئی تو آپ لوگ دیانتر پاس پروگرام منسوخ کر دیں گے۔‘‘
’’اب یہ پروگرام جاری رہے گا؟‘‘
’’ڈاکٹر صاحب آپ کو اندازہ نہیں ہے کہ میں کتنا بددل اور پریشان ہوں ۔ شرمندگی کی وجہ سے فون کرنے کی بھی ہمت نہیں ہوئی، لیکن نوکری پھرنوکری ہے۔میں اب بھی کوشش کر رہا ہوں مگر … ۔‘‘ عرفان نے مایوسی کی حالت میں فقرہ ادھورا چھوڑ دیا۔
’’مگرہم کیا کریں ؟‘‘ میں نے بے چارگی سے سوال کیا۔
’’آپ ٹریک جاری رکھیں ۔‘‘
’’کیسے جاری رکھیں ؟ ہمارے پاس نہ تو ٹریکنگ کا سامان ہے اور نہ ہی ٹریک کے انتظامات کا تجربہ ہے۔ ‘‘ میں نے پریشانی ظاہر کی۔
’’سکردو میں حاصل کیا گیا تجربہ کافی رہے گا۔آپ لوگ راکا پوشی بیس کیمپ کا پروگرام بنا رہے تھے،وہاں ہو آئیں ۔‘‘
’’راکا پوشی بیس کیمپ ٹریک کے لئے پونے تین عدد رک سیک کافی رہیں گے؟‘‘ میں نے طنزیہ لہجہ اختیار کیا۔
’’سامان کا فکر نہ کریں ۔حتمی فیصلہ کرنے کے بعد مجھے فون کر دیں ۔ ٹریکنگ کا مکمل سامان مع خیمے اور نیلا ڈرم کوہستان بس سروس کے ذریعے بھجوا دیا جائے گا۔ کریم آباد پہنچ کر ضرورت کے مطابق پورٹرز ہائر کریں اور ٹریک کے انتظامات کسی تجربہ کار پورٹر کو سونپ دیں ۔ امید ہے کوئی پریشانی نہیں ہو گی۔‘‘
بے شک عرفان ’’امید سے تھا‘‘ لیکن ہماری امیدوں پر پانی پھیرنے کا خاطر خواہ انتظام کر چکا تھا۔
’’کیا مسئلہ ہے؟‘‘ طاہر نے آنکھیں ملتے ہوئے سوال کیا۔وہ غالباً ابھی بیدار ہوا تھا اور اس نے میری اور عرفان کی گفتگو کے آخری چند جملے سن کر اندازہ لگا لیا تھا کہ دیانتر پاس مہم کسی مسئلے سے دوچار ہو چکی ہے۔
چار ٹریکر، چلے دیانتر، تھے وہ پُر یقین
ایک ٹریکر ’’نھس‘‘ گیا ڈر کر باقی رہ گئے تین
میں نے صورتِ حال کی سنگینی کم کرنے کی کوشش کی۔
’’بھٹہ صاحب واپس چلے گئے ہیں ؟‘‘ طاہر پریشان ہو گیا۔
تین ٹریکر باقی تھے سر، پُر عزم تھے وہ
ایک ٹریکر، پھنس گیا دفتر، باقی رہ گئے دو
’’کیا اوٹ پٹانگ ہانک رہے ہیں ؟سیدھی طرح بتائیں مسئلہ کیا ہے؟‘‘
میں نے عرفان کے انکار اور اس کے ساتھیوں کے فرار کی ’’بد خبری‘‘ سنائی۔ طاہر کے چہرے پر زلزلے کے آثار نظر آئے۔
’’رہنے دیں جی۔ آپ کے سارے کام شیخ چلی والے ہوتے ہیں ۔یہ عرفان کا پٹھا آپ نے ڈھونڈا کہاں سے تھا ؟بنے بنائے پروگرام کا ستیاناس کر کے رکھ دیا۔اتنی افراتفری کے عالم میں کسی نئے ٹریک کے انتظامات کرنا آسان کام ہے؟ اسے منع کر دیں کہ سامان وغیرہ بھیجنے کا ڈرامہ رچانے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ ہم ٹریک کی منصوبہ بندی کر سکتے ہیں تو سامان کا انتظام بھی کر لیں گے۔جن کے ساتھ عرفان نہیں ہوتا وہ لوگ ٹریک نہیں کرتے؟‘‘
طاہر تقریر بازی … اور اتنی طویل بازی پر اتر آئے تو سمجھ لینا چاہیے کہ غیظ و غضب کا پارہ قوّتِ برداشت کی تمام حدیں عبور کر چکا ہے۔ اس وقت عرفان نظر آ جاتا تو دوبارہ کوئی ٹریک کرنے کے قابل نہ رہتا۔
اب ہمیں بھٹہ صاحب کا انتظار تھا کہ وہ تشریف لائیں اور موجودہ صورتِ حال پر قابو پانے کے لیے اپنی سفارشات پیش کریں ۔ انتظار کے لمحات طویل غسل اور گرما گرم کشمیری چائے کے کپ سے لطف اندوز ہو تے ہوئے گزارے۔ اس دوران ادھر ادھر کی گپ شپ جاری رہی جو زیادہ تر عرفان کی شان میں ناروا گستاخیوں اور آیندہ کے خیالی منصوبہ جات پر مشتمل تھی۔ بھٹہ صاحب تقریباً ایک بجے نمودار ہوئے۔ہم نے نہایت گرمجوشی سے استقبال کیا اور ر سماً دریافت کیا کہ سفر کیسا گزرا؟
’’آپ زخموں پر نمک چھڑکنے کے بجائے میری حالت سے اندازہ نہیں کر سکتے کہ سفر کیسا گزرا؟‘‘ بھٹہ صاحب نے انتہائی بے زاری سے جواب دیا۔
’’بالکل کر سکتے ہیں ۔آپ کی کہانی آپ کی زبانی سن کر چسکے لینا چاہتے ہیں ۔‘‘
’’میں نے اتنا ہولناک سفر پہلے کبھی نہیں کیا۔اس لعنتی بس کا ہر پرزہ کھڑکا ہوا تھا اور ڈرائیور نشے میں تھا۔اُس نے وہاڑی سے اسلام آباد تک ہزاروں سٹاپ کر ڈالے۔ ہر سٹاپ پر دل چاہتا تھا واپس چلا جاؤں ۔‘‘
’’ہمہ یاراں واپس۔‘‘ میں نے دھیمے لہجے میں تائید کی۔
’’کیا مطلب؟‘‘
’’آپ ذرا تازہ دم ہولیں ۔ہمارے پاس کئی غیر متوقع خوش خبریاں ہیں ۔‘‘
بھٹہ صاحب نے واش روم کا رخ کیا اور تقریباً آدھا گھنٹا تازہ دم ہونے میں صرف کرنے کے بعد برآمد ہوئے۔
’’جی جناب!پہلی خوشخبری کیا ہے؟‘‘
’’ذرا دل تھام کر سنیے کہ ’’اپن‘‘ کے میرِ کارواں عرفان فیصل آبادی صاحب بعض ناگفتہ بہ مجبوریوں کے باعث دیانتر پاس ٹریک پر جانے سے قاصر ہیں ۔‘‘ میں نے پُر سکون لہجے میں اطلاع دی۔
’’ایہہ کی بکواس اے؟‘‘ بھٹہ صاحب کو یقین نہ آیا۔
’’اب جگر تھام کر سنیے کہ عرفان صاحب کی ٹیم کے تمام ارکان پہلے ہی ٹریک پر جانے سے انکار کر چکے تھے۔انھوں نے اطلاع دینا اس لئے مناسب نہ سمجھا کہ ہمارے شیشہ ء دل کو ٹھیس پہنچے گی۔‘‘
’’شیشہ ء دل کی ایسی تیسی۔سیدھی طرح بتائیں کہ عرفان کیوں نہیں آ رہا؟‘‘ بھٹہ صاحب نے آستینیں چڑھاتے ہوئے جارحانہ انداز اختیار کیا۔آستینیں چڑھا کر جارحانہ انداز اختیار کرنا بھٹہ صاحب کا ’’تکیہ کلام‘‘ ہے۔ میں نے بھٹہ صاحب کی جارحیت پر توجہ دیئے بغیر بیان جاری رکھا۔
’’اب جو دل چاہے وہ تھام کر سنیے کہ دیانتر پاس ٹریک پر فاتحہ پڑھ لی گئی ہے۔ آپ جس بس میں راولپنڈی آئے ہیں اُسی سے واپس جانا پسند فرمائیں گے یا اُس سے زیادہ لعنتی بس کا انتظام کیا جائے؟‘‘
’’آپ اگر بے تکی لفاظی چھوڑ کر سیدھے سادھے الفاظ میں بتا دیں کہ عرفان کیوں نہیں آ رہا تو شاید کوئی بہتر حل نکل آئے۔‘‘ بھٹہ صاحب سنجیدہ ہو گئے۔
میں نے سلیس اردو میں بتا دیا کہ عرفان کیوں نہیں آ رہا۔
بھٹہ صاحب کے چہرے پر بے پناہ بزرگی چھا گئی اور وہ مراقبے میں چلے گئے۔
’’انا للہ کا ورد شروع کر دیں ۔‘‘ انھوں نے چند منٹ بعد حکم صادر کیا۔
’’کیا مطلب؟‘‘ میں نے اور طاہر نے بیک وقت وضاحت چاہی۔
’’انا للہ و انا الیہ راجعون کا ورد کریں ، بیس مرتبہ۔‘‘ بھٹہ صاحب نے وضاحت کر دی۔
’’یار خدا کا خوف کرو۔عرفان ٹریک پر جانے سے انکار ی ہے،خدا نخواستہ … ‘‘ میں نے فقرہ ادھورا چھوڑ دیا۔
’’لا حول ولا قوۃ!میرا ہرگز یہ مطلب نہیں ۔انا للہ کا ورد راستے سے بھٹکے ہوئے لوگوں کو گھر واپس لانے کا تیر بہ ہدف نسخہ ہے۔‘‘
’’ہم عرفان کو گھر سے نکالنا چاہتے ہیں ،آپ گھر واپس جانے کا نسخہ بتا رہے ہیں ۔ سچ مچ گھوم تو نہیں گئے؟‘‘
’’بال کی کھال اتارنے کے بجائے بیس مرتبہ انا للہ پڑھ لیں گے تو کون سی قیامت آ جائے گی؟‘‘ بھٹہ صاحب نے آنکھیں دکھائیں ۔
’’آپ کے خیال میں عرفان کی آمد اب بھی ممکن ہے؟‘‘
’’امید پر دنیا قائم ہے۔ہو سکتا ہے عرفان نے مذاق کیا ہو۔مجھے یقین نہیں آ رہا کہ وہ اتنی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کر سکتا ہے۔‘‘
بھٹہ صاحب بھی عرفان کی طرح امید سے تھے اور ان کا وہی حال تھا کہ:
ہر بات جانتے ہوئے دل مانتا نہ تھا
ہم جانے اعتبار کے کس مرحلے میں تھے
بھٹہ صاحب نہایت سنجیدگی سے انگلیوں کے پوروں پر گن کرانا للہ وانا الیہ راجعون کی تسبیح پڑھنے میں مشغول ہو گئے۔میں نے اُن کا دل رکھنے کے لئے مصنوعی خشوع و خضوع کے ساتھ با آوازِ بلند ورد شروع کر دیا اور طاہر نے طنزیہ انداز میں تقلید کی۔ ورد مکمل کرنے کے بعد بھٹہ صاحب نے باقاعدہ ہاتھ اٹھا کر دعا کروائی۔ دعا کے بعد ہم برنچ کی تلاش میں بس سٹینڈ پر آ گئے اور نہایت رغبت سے مرغ کڑاہی ’’زہر مار‘‘ فرمایا۔ کڑک چائے نے بیزاری اور کسلمندی دور کرنے میں بہت مدد کی۔ چائے کی چسکیوں کے دوران بھٹہ صاحب بار بار متوقع نظروں سے موبائل کی طرف دیکھتے رہے کہ شاید عرفان پلٹ وظیفہ کوئی کمال کر دکھائے … بالآخر وہ بھی مایوس ہو گئے اور تین رکنی کمیٹی کا ’’ٹریک ساز‘‘ اجلاس شروع ہوا جس میں فیصل آباد گروپ کے خلاف متفق علیہ قرار دادِ مذمت منظور کرنے کے بعد ’’تھڑا کانفرنس کے چار نکات ‘‘ کا باضابطہ اعلان کر دیا گیا:
۱۔عرفان نے دیانتر پاس ٹریک منصوبہ ’’ڈرون حملے ‘‘ کے ذریعے نیست و نابود کر دیا ہے۔ اس پر ٹیم کے منشور سے بغاوت کی فردِ جرم عائد کی جاتی ہے۔خوش قسمتی سے موقع میسر آ گیا تو کمرے میں بند کر کے …
نوٹ:سزا کا اعلان موقع پر کیا جائے گا۔قبل از وقت انکشاف سے تھڑا کانفرنس کے شرکاء میں شدید اختلاف پیدا ہونے کا خدشہ ہے … کہ پہل کون کرے گا؟
۲۔تھڑا کانفرنس کے شرکاء بہ صد افسوس اعتراف کرتے ہیں کہ دیانتر پاس ٹریک کے انگور کھٹے ہیں ۔یہ احمقانہ منصوبہ فی الفور منسوخ کیا جاتا ہے اور:
اب اپنا اختیار ہے چاہے جہاں چلیں
رہبر سے اپنی راہ جدا کر چکے ہیں ہم
۳۔ رہبر سے اپنی راہ جدا کرنے کے بعدٹیم مایوس ہو کر واپس جانے کے بجائے سکردو جائے گی اور گیشا بروم ہوٹل میں قیام کرے گی تاکہ ڈاکٹر صاحب کے گذشتہ تجربات سے بھرپور فائدہ اٹھایا جائے۔
۴۔ایڈونچر ٹورز کے منیجر مبارک صاحب کی مدد سے پورٹرز کا بندوبست کیا جائے گا اور بزرگ ترین پورٹر کو مشیر اعظم کے عہدے کی پیشکش کی جائے گی۔ اُس کا فرض ہو گا کہ کیمپنگ سے مکمل پاک ایک ایسا ٹریک منتخب کرے جس میں آخری پڑاؤ تک قیام و طعام کی سہولت میسر آئے، ٹینٹ وغیرہ کی ضرورت پیش نہ آئے۔
چار نکات منظور ہونے کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ عرفان کو فون کر کے کیمپنگ کا سامان بھجوانے کی پیشکش ٹھکرا دی جائے۔
’’جی جناب!پروگرام کہاں تک پہنچا؟گلگت کے لئے بکنگ ہو گئی؟‘‘ عرفان نے کال وصول کرتے ہی سوال کیا۔
’’گلگت؟ … کون سا گلگت؟ … کیسا گلگت؟ … کہاں ہے یہ گلگت؟‘‘
’’کیا مطلب؟آپ گلگت نہیں جا رہے؟‘‘
’’یہ ہوائی کسی دشمن نے اڑائی ہو گی۔‘‘ میں نے لاپرواہی سے کہا۔
’’اوہ مائی گاڈ!آپ نے واپسی کا سفر شروع تو نہیں کر دیا؟‘‘ عرفان کے لہجے میں ایک اَن جانی سی پریشانی تھی۔
’’واپس جائیں ہمارے فیصل آبادی دشمن،ہم سکردو جائیں گے۔‘‘ میں نے چٹخارے دار لہجے میں خوشخبری سنائی۔
’’سکردو؟ سکردو کہاں سے آن ٹپکا؟‘‘ عرفان مزید پریشان ہو گیا۔
’’دیانتر پاس کی برفیلی بلندیوں سے۔اور ہاں ،آپ سے بہ صد مذمت گزارش کی جاتی ہے کہ کوہستان بس سروس کو کسی قسم کی زحمت دینے کی ضرورت نہیں ، ہم کیمپنگ کریں گے تو سامان وغیرہ کا بندوبست بھی خود ہی کر لیں گے۔‘‘
’’ما شا اللہ … چشمِ بد دور!ذرا یہ بھی فرما دیں کہ اتنی خود اعتمادی کب سے آ گئی جناب میں ؟‘‘ عرفان نے طنزیہ انداز اختیار کرنے کی کوشش کی۔
’’آج سے،بلکہ ابھی سے۔‘‘ میں نے شاہانہ انداز میں کہا۔
’’چشمِ ما روشن، دلِ ما شاد۔اس کا مطلب ہے میں پنڈی بھٹیاں سے واپس چلا جاؤں ؟‘‘ عرفان نے نہایت سادگی سے سوال کیا۔
’’کہاں سے واپس چلا جاؤں ؟‘‘ مجھے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔
’’پنڈی بھٹیاں سے۔‘‘
’’آپ پنڈی بھٹیاں میں کیا کر رہے ہیں ؟‘‘
’’میں پنڈی بھٹیاں سے گزر رہا ہوں ۔‘‘
’’کیوں گزر رہے ہیں ؟‘‘ میں نے بے تکے انداز میں سوال کیا۔
’’راولپنڈی آنے کے لیے پنڈی بھٹیاں سے گزرنا مجبوری ہے۔‘‘
’’عرفان صاحب پلیز! آپ مذاق کر رہے ہیں یا ہمارا مذاق اڑا رہے ہیں ؟‘‘ میں نے سنجیدگی اختیار کی۔
’’سر جی ایسی کوئی بات نہیں ۔ میں دو تین گھنٹے تک راولپنڈی پہنچ رہا ہوں ۔آپ گلگت کے لیے چار سیٹیں بک کروالیں ۔‘‘
’’لیکن … لیکن … اس سے پہلے آپ نے جو ڈراما بازی کی،وہ صرف ہمیں ذہنی اذیت پہنچانے کے لئے تھی؟‘‘
’’آپ مجھے اتنا اذیت پسند سمجھتے ہیں ؟حالات اچانک بدلے،اور اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے حق میں بدلے۔ راولپنڈی پہنچ کر مکمل وضاحت کروں گا۔آپ ناٹکو کے آخری ٹائم میں سیٹیں بک کروالیں تاکہ آج کا دن ضائع نہ ہو۔‘‘
’’اطلاعاً عرض ہے کہ ہم نان۔ اے سی بس میں گلگت جائیں گے،اورنان اے سی بسیں اتنی فراوانی سے میسرہیں کہ پیشگی بکنگ کی ضرورت نہیں ۔ ‘‘
’’نان اے سی بس؟میرا خیال ہے کوئی نان اے سی بس گلگت نہیں جاتی۔ نان۔اے سی سروس صرف مزدا یا ہائی ایس ویگنیں مہیا کرتی ہیں ۔‘‘
’’لہٰذا ہم مزدا یا ہائی ایس میں گلگت جائیں گے۔‘‘
’’سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ناٹکو کی لگژری بس سروس کی موجودگی میں مزدا یا ہائی ایس میں بیس گھنٹے کا کمر توڑ سفر؟ میں ابھی اتنا پاگل نہیں ہوا۔‘‘
’’فکر نہ کریں ،یہاں پہنچتے ہی ہو جائیں گے۔‘‘
میں نے جواب سنے بغیر فون بند کر دیا۔
بھٹہ صاحب عرفان پلٹ وظیفے کی کامیابی پر پھولے نہیں سما رہے تھے۔میں نے اور طاہر نے انا للہ و انا الیہ راجعون کی کرامت کا اعتراف کیا اور بھٹہ صاحب کو نیند کی مختصر جھپکی سے لطف اندوز ہونے کا مشورہ دے کر بس سٹاپ کی مارکیٹ میں ونڈو شاپنگ کرنے نکل کھڑے ہوئے۔ہم نے مشہ بروم، کے۔ٹو ٹریولز،سلک روٹ اور دیگر کمپنیوں کے کاؤنٹرز کے چکر لگائے۔ عرفان کے اس دعوے کی تصدیق ہو گئی کہ گلگت کے لئے نان اے سی سروس صرف ہائی ایس اور مزدا ویگنیں ہی مہیا کرتی ہیں ۔ہائی ایس یا مزدا میں سفر کرنے کے تصور ہی سے میرے جسم میں جھرجھری آ جاتی ہے۔وہ وقت یاد آ جاتا ہے جب میں ہر ہفتے ملتان سے وہاڑی آتا تھا،ہائی ایس کو’’ڈیتھ کیپسول‘‘ اور مزدا کو ’’کنکریٹ مکسچر‘‘ کہتا تھا۔ایک مرتبہ پھر اس کنکریٹ مکسچر میں اٹھارہ گھنٹے اتھل پتھل ہونے کا خوفناک مرحلہ درپیش تھا،اور میں ذوقِ آوارگی کی خاطر اس مرحلے سے گزرنے پر آمادہ تھا۔
عرفان ایک عدد نیلے ڈرم اور دو سامان بند بوریوں سے لدا پھندا تقریباً تین بجے طلوع ہوا۔ہم نے جتنی نرم جوشی سے استقبال کیا اُس سے کہیں زیادہ گرم جوشی سے طعن و طنز کے تیر چلائے اور اُس کے پُر اسرار رویے کی وضاحت چاہی۔
’’آپ لوگ خواہ مخواہ ناراض ہو رہے ہیں ۔سرکاری اداروں میں اس قسم کی ڈرامہ بازی روزمرہ کا معمول ہے۔‘‘
’’خواہ مخواہ؟آپ پورے پروگرام پر بلڈوزر پھیرنے لگے تھے اور خواہ مخواہ ہمیں کہہ رہے ہیں ۔دماغ شماغ ٹھیک ہے آپ کا؟‘‘ بھٹہ صاحب پھٹ پڑے۔
’’سر جی، ہوئی تاخیر تو کچھ باعثِ تاخیر بھی تھا۔اب میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں اور ہم انشاء اللہ پروگرام کے مطابق ٹریک مکمل کریں گے۔‘‘
’’لیکن اس ڈرامائی تبدیلی کی کوئی وجہ ضرور ہو گی۔ آپ نہیں بتائیں گے تو خلش رہے گی کہ ہمیں بیوقوف بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔‘‘ میں نے بھٹہ صاحب کی حمایت کی۔
’’کوئی خاص بات نہیں ہے۔کل آڈٹ ٹیم ایف۔ ڈی اے کے دفاتر میں اچانک نازل ہوئی اور بوکھلاہٹ کے عالم میں سب کی چھٹیاں منسوخ کر دی گئیں ۔آج بھی دوپہر تک ہنگامی صورتِ حال نافذ رہی اور آڈیٹرز حضرات مختلف شعبوں کا ریکارڈ الٹ پلٹ کرتے رہے۔چائے کے وقفے پر علم ہوا کہ جس اعتراض کی تفتیش ہو رہی ہے اُس کا میرے شعبے سے کوئی تعلق نہیں ۔ مجھے این۔ او۔ سی مل گیا اور ڈائریکٹر صاحب نے تھوڑی بہت منت سماجت کے بعد چھٹیاں بحال کر دیں ۔ میں نے فوراً راولپنڈی کا رخ کیا۔‘‘
’’نوازش،کرم،شکریہ،مہربانی … ہمیں بخش دی آپ نے زندگانی۔ اس بخشش کے طفیل آپ کو سنائی گئی سزا میں نرمی کی جا سکتی ہے۔‘‘
’’کیسی سزا؟‘‘
’’اصل سزا نہایت شرمناک تھی،موجودہ صورتِ حال کے پیشِ نظر آپ کو گلگت تک مزدا یا ہائی ایس میں سفرکرنے کی سزا سنائی جاتی ہے۔‘‘
’’سفرِ تنہائی با مشقت؟یہ انتہائی ظالمانہ فیصلہ ہے۔‘‘ عرفان بدک گیا۔
’’آپ کو تنہا نہیں چھوڑا جائے گا۔پوری ٹیم آپ کے ساتھ جائے گی۔‘‘
’’گلگت تک پوری ٹیم کی ہڈی پسلی ایک ہو چکی ہو گی۔رہبر ٹوٹ پھوٹ سے بچ بھی گیا تو دیانتر پاس کسے عبور کرائے گا؟یہ انتہائی احمقانہ فیصلہ ہے اور میں خصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے اسے ویٹو کرتا ہوں ۔‘‘
عرفان کو اس احمقانہ فیصلے کی تفصیلات سے آگاہ کیا گیا تو اُس کے ہاتھوں کے توتے اُڑ گئے۔ کافی دیر تک سوچ بچار کرنے کی اداکاری فرمانے کے بعد اُس نے بھٹہ صاحب سے عاجزانہ درخواست کی کہ وہ اکیلے نان اے۔ سی بس میں سفر کر لیں تاکہ باقی اراکین غیر ضروری اذیت کا شکار نہ ہوں ۔بھٹہ صاحب نے ٹکا سا جواب دے دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ دیکھے بھالے راستے پر اکیلے سفر کیا جا سکتا ہے، اجنبی راستے پر ’’کلم کلے‘‘ سفر کرنا ممکن نہیں ۔ وہ گلگت تک اکیلے سفر کرنے کی نسبت واپس جانے کو ترجیح دیں گے اور کرایہ ہم سے وصول کریں گے۔عرفان نے ’’ملک و قوم‘‘ کے مفاد میں رولنگ دی:
’’ٹریکنگ کی دنیا میں پوری ٹیم ایک اکائی کی حیثیت سے شناخت کی جاتی ہے، اس لئے پوری ٹیم نان۔ اے سی بس میں گلگت جائے گی۔ ‘‘
ہم نے مشہ بروم ٹریولرز کی مزدا میں سیٹیں بک کروائیں اور شام پانچ بجے گلگت کے لیے روانہ ہوئے۔روانہ ہوتے ہی احساس ہو گیا کہ مزدا کی ’’گھٹنے جوڑ‘‘ نشستوں پر تشریف فرما ہو کر اٹھارہ گھنٹے سفر کرنے کے بعد ہمارا کیا حشر ہو گا،مگر بھٹہ کردہ را علاج نیست اور خود بھٹہ صاحب سفر کی دشواریاں بھول بھال کر عجوبہ روزگار شاہراہِ قراقرم دیکھنے کے لئے بے قرار تھے۔ انھوں نے تاکید فرمائی کہ جیسے ہی بس شاہراہِ قراقرم پر ٹائر رکھے انھیں مطلع کر دیا جائے۔شاہراہِ قراقرم کا باضابطہ آغاز حویلیاں سے ہوتا ہے۔ ہم ٹیکسلا اور ہری پور سے گزر کر حویلیاں پہنچے تو شام کے سائے ظلمتِ شب میں گم ہو چکے تھے۔اردگرد کے ماحول پر تاریکی کا راج تھا۔آبادیوں میں ٹمٹمانے والی روشنیاں اس تسلط سے بغاوت کی کوشش کرتی تھیں ،لیکن ناکام تھیں ۔ شاہراہِ قراقرم کا صرف وہی حصہ نظر آ رہا تھا جو ویگن کی روشنیوں کی زد میں تھا۔میں نے بھٹہ صاحب کو اطلاع دی کہ ہم شاہراہِ قراقرم پر ٹائر رکھ چکے ہیں ۔بھٹہ صاحب اپنی سیٹ سے اٹھے اور ڈرائیور کے پاس جا کر بونٹ پر تشریف فرما ہو گئے۔چند کلومیٹر شاہراہ کا جائزہ لینے کے بعد وہ اپنی نشست پر تشریف لائے اور یوں گویا ہوئے:
’’یہ قراقرم ہائی وے ہے جسے دنیا کا آٹھواں یا نواں عجوبہ کہا جاتا ہے؟‘‘ اُن کے لہجے میں کسی حد تک طنز کی آمیزش تھی۔
’’بے شک۔‘‘
’’ہمارے ڈیرے تک جانے والی سڑک اس سے بدرجہا بہتر ہے۔‘‘
’’آپ ایک استاد ہیں اور میں آپ کا احترام کرنے پر مجبور ہوں ۔اس کے علاوہ آپ سے بہت زیادہ بے تکلفی بھی نہیں ہوئی ہے،ورنہ اس تبصرے پر … خیر چھوڑیں ، آپ فی الحال خوابِ خرگوش سے لطف اندوز ہوں ۔‘‘ میں نے مشورہ دیا۔
’’آپ کہنا کیا چاہتے ہیں ؟‘‘
’’کچھ نہیں ۔بائی دا وے … آپ کے خیال میں شاہراہِ قراقرم کو کیسا ہونا چاہیے؟‘‘
’’میرا خیال تھا کہ شاہراہ قراقرم پر مزدا اتنی سبک خرامی سے سفر کرے گی جیسے جھیل کی سطح پر مرغابی تیرتی ہے۔ اس بے مثال شاہراہ کے یہی تیور رہے تو گلگت پہنچتے پہنچتے ہڈی پسلی واقعی ایک ہو چکی ہو گی۔یہ آخر کس قسم کا عجوبہ ہے؟‘‘
’’آپ کے خیال میں شاہراہ قراقرم کے عجائبات اس کی بجری، تارکول اور بناوٹ میں پوشیدہ ہیں ؟‘‘
’’پتا نہیں کہاں پوشیدہ ہیں ،نظر نہیں آرہے۔‘‘ بھٹہ صاحب نے بیزاری سے کہا۔
’’جنابِ عالی شاہراہِ قراقرم کے عجائبات ساخت میں نہیں اس لینڈ سکیپ میں پوشیدہ ہیں جس کی تراش خراش کے نتیجے میں شاہراہ نے جنم لیا۔بد قسمتی سے اس وقت آپ اس لینڈ سکیپ کا نظارہ نہیں کر سکتے۔ اس لیے گزارش کی تھی کہ فی الحال سو جائیں ،دن کی روشنی میں چودہ طبق روشن ہو جائیں گے۔‘‘
بھٹہ صاحب نے خشمگیں نظروں سے مجھے گھورا، اور نشست پر نیم دراز ہو گئے۔
شاہراہِ قراقرم پر ٹائر رکھتے ہی شمال کی سحر انگیز فضائیں اپنا جادو جگانے لگتی ہیں ۔ اوپن ایئر ویگن کی کھڑکیوں سے آنے والے پُر کیف ہوا کے جھونکے ہمارے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتے تھے۔ شاہراہ کے ساتھ ساتھ بکھری ہوئی بستیوں میں جھلملاتی ہوئی روشنیاں چراغاں کا سماں باندھتی تھیں اور گہرائی میں بہنے والے دریا کی لہریں استقبالیہ دھنیں بکھیرتی تھیں ۔ دن کی روشنی میں قدرت کے چٹانی عجائب گھر کا منظر اپنی جگہ … رات کا پُر سکون سناٹا ’’شہریت‘‘ پر جو سحر طاری کرتا ہے وہ بہت دلفریب ہے۔
شاہراہِ قراقرم کے ابتدائی حصے پر سفر کرنا مجھے مسرت اور سرشاری کے ساتھ ایک نامعلوم بے چینی، احساسِ کمتری اور احساسِ غلامی کی اذیت میں مبتلا کر دیتا ہے۔ اس اذیت کی وجہ ہری سنگھ نلوہ،جیمز ایبٹ،مان سنگھ اور چھتر سنگھ ہیں جو ہماری غلامی کی تاریخ کے سیاہ ترین باب ہیں ۔ ہری پور، ایبٹ آباد، مانسہرہ اور چھتر پلین سے گزرتے ہوئے یہ اذیت ناک کردار یاد آ جاتے ہیں اور اس اذیت کا المناک پہلو یہ ہے کہ میں ان مقامات کا نام تبدیل کرنے کی خواہش نہیں کر سکتا۔ مغلِ اعظم کی جائے پیدائش ’’امرکوٹ‘‘ کو ’’عمرکوٹ‘‘ میں تبدیل کرنے کی غیر تاریخی حرکت کو میں نے ہمیشہ حقائق کا چہرہ مسخ کرنے کے مترادف سمجھا، اس لئے یادِ ماضی کے عذاب سے گزرنا ایک ’’خوشگوار‘‘ مجبوری ہے۔یہ اسمائے غلامی اُس سرور آمیز نشے کا انتہائی تلخ جام ہیں جس کے لئے سارا سال انتظار کیا جاتا ہے۔
مانسہرہ اور چھتر پلین پر بس نے مختصر قیام کیا اور ہم تھاکوٹ و بٹگرام سے گزرتے ہوئے رات دس بجے کے لگ بھگ بشام پہنچے جہاں کھانے کے وقفے کا اعلان کیا گیا۔ بشام کے بس سٹاپ کے نزدیک واقع ہوٹلوں میں دستیاب بے ذائقہ اور ٹھنڈا کھانا اب ایک ناخوشگوار معمول بن چکا ہے۔پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کی مجبوریاں مسافر کو بس سٹاپ کے نزدیکی ہوٹلوں تک محدود کر دیتی ہیں اور ڈرائیور حضرات ہمیشہ ان ہوٹلوں کے سامنے کھانے کا وقفہ کرتے ہیں جہاں ان کی پُر جوش پذیرائی اور مسافروں کی’’جیب کترائی‘‘ کا خاطر خواہ انتظام ہو۔بشام کے بس سٹاپ کے نزدیک واقع ہوٹلوں ،ریستوران اور کھوکھوں پر مسافروں کی لوٹ کھسوٹ کے فن کا شاندار مظاہرہ چوبیس گھنٹے جاری رہتا ہے۔ ہم ایک ریستوران میں چکن بریانی کا ’’چربہ‘‘ نوش جاں فرما کر لکڑی کے بنچوں پر نیم دراز ہو گئے۔یہ نیم درازگی ضرورت سے زیادہ دراز ہونے لگی تو بھٹہ صاحب تشویش میں مبتلا ہو گئے۔
’’یار بشام ڈنر سٹاپ ہے یا نائٹ سٹاپ؟یہ ڈرائیور کا پٹھا سو تو نہیں گیا؟‘‘
’’ڈرائیور آپ سے زیادہ بے تاب ہو گا،لیکن بشام ڈنر سٹاپ ہونے کے علاوہ کارواں سٹاپ بھی ہے۔ کارواں مکمل ہو گا تو آگے سفر شروع ہو گا۔ ‘‘ عرفان نے جواب دیا۔
’’کارواں ؟آج کل کارواں کی صورت میں کون سفر کرتا ہے؟میرا خیال ہے کاروانوں کا زمانہ بیتے کئی زمانے بیت گئے۔‘‘
’’آپ کا خیال بالکل غلط ہے۔بشام سے شمالی علاقہ جات کی سرحد تک ہمارا سفر کارواں کی صورت میں ہو گا، اور کارواں اس وقت مکمل ہو گا جب بشام میں کم از کم دس گاڑیوں کا قافلہ مکمل ہو جائے۔‘‘
’’اس جدید دور میں کارواں کا لفظ کچھ اجنبی نہیں لگتا؟‘‘
’’رات کے وقت کوہستان کا علاقہ محفوظ نہیں سمجھا جاتا۔گاڑیاں روک کر لوٹ مار کرنے کے کئی واقعات ہو چکے ہیں ۔اس کے علاوہ کوئی گاڑی خراب ہو جائے تو کسی قسم کی مدد میسر نہیں آتی۔ اس لئے دس بارہ گاڑیاں اکٹھی سفر کرتی ہیں اور رینجرز کی جیپ اس کارواں کو بحفاظت شمالی علاقہ جات کی سرحد تک پہنچا دیتی ہے۔ ‘‘
’’اغوا شغوا تو نہیں ہوتے؟‘‘ بھٹہ صاحب نے فکر مندی ظاہر کی۔
’’کوہستانی پٹھان ڈاکو ہو سکتا ہے، اتنا بد ذوق نہیں ہو سکتا کہ تم جیسے سیاہ فام نمونے کو اغوا کرے۔ ‘‘ طاہر نے اطمینان دلایا۔
’’مجھے اپنی سیاہ فامی سے زیادہ تمھاری موٹی تازی گلفامی کی فکر ہے۔ کسی کوہستانی کی رال ٹپکنے لگی تو بھابھی جان کو کیا منہ دکھاؤں گا؟‘‘
’’دُر فٹے منہ۔‘‘
ڈاکٹر محمد اقبال ہما