میں جانتا تھا کہ زیرِ عتاب کر کے مجھے
تُو میری نیند اُڑائے گا خواب کر کے مجھے
تری پسند پہ میں معترض نہيں ‘ لیکن
تُو خوش رہے گا نہيں انتخاب کر کے مجھے
اب آ گیا ہوں تو واپس پلٹنا ٹھیک نہيں
کسی کتاب میں رکھ لے ‘ گلاب کر کے مجھے
عجیب شخص ہے پھر خود ہی رونے لگتا ہے
سوال پوچھ کے اور لاجواب کر کے مجھے
خدا کا شُکر ‘ کسی کے تو کام آیا ‘ میں
کوئی تو ٹھیک ہوا ہے خراب کر کے مجھے
گناہ گاروں میں بیٹھا ہوا تھا میں ‘ عامی
کَما لیا ہے کسی نے ثواب کر کے مجھے
عمران عامی