بہت سماجت کرے گا تیری! تو اس کی باہوں میں لوٹ آئے
مگر قسم ہے کہ مت پلٹنا بھلے وہ گھٹنوں پہ آ بھی جائے
تلاش جاری ہے کب سے اپنی کئی دنوں سے میں گمشدہ ہوں
کوئی وہ مرشد ہمیں ملاؤ جو مجھ کو مجھ سے ہی آ ملائے
نصیحتیں کب اثر کریں گی جو اپنی دھن میں چلا ہے تنہا
نہیں ہے پروا جہاں کی اس کو جو بولتا ہے وہ بولے جائے
ہوا روانہ چھڑا کے دامن نئے سفر کو کوئی مسافر
بلک رہے ہیں جو اس کے پیچھے انہیں بھی کوئی تو چپ کرائے
سنور کے دیکھوں میں راہ اس کی ہے وقت اب اس کی واپسی کا
وہ ایسا ڈھولا جو نوکری سے رقیب کے گھر کو سیدھا جائے
ابھی قیامت کہاں ہوئی ہے ابھی ہوا ہے عذاب نازل
کسے خبر ہے کہ ان عذابوں سے جان کب اپنی چھوٹ جائے
مرے بدن پر ہے نیل اس کے شدید لفظوں کے چابکوں کا
جو مجھ کو کہتا تھا شہد لفظوں میں "جی کہوں” تُو اگر بلائے
گرا رہا گر تمہیں زمانا تو فارحہ تم نہ ہار جانا
چلن زمانے کا یہ رہا ہے جو خوب چمکے اسے بجھائے
فارحہ نوید