مطلع غزل کا غیر ضروری کیا کیوں کب کا حصہ ہے
ایک اردو غزل از ادریس بابر
مطلع غزل کا غیر ضروری کیا کیوں کب کا حصہ ہے
زندگی چاکلیٹ کیک ہے تھوڑا تھوڑا سب کا حصہ ہے
اب جو بار میں تنہا پیتا ہوں کافی کے نام پہ زہر
اس کی تلخ سی شیرینی میں اس کے لب کا حصہ ہے
لوک کہانیوں میں مابعد جدید کی پیش آمد جیسے
فکشن کی ری سیل ویلیو میں مذہب کا حصہ ہے
کے پی کے افغانستان ہے اور بلوچستان ایران
سندھ ہے چین میں اور پیارا پنجاب عرب کا حصہ ہے
سوہنی یا سوہنے سے پہلے حق ہے گھڑے پر پانی کا
کب سے گھڑی میں جب اور تب سے زیادہ اب کا حصہ ہے
مانا ہجر کی رات ہے یہ پر کتنی خوشی کی بات ہے یہ
غم کی رم رم جھم کی ہمدم بزم طرب کا حصہ ہے
کیب چلانے والے داجی ٹیب چلانے والا ساجی
وہ جو ادب کا حصہ تھے تو یہ بھی ادب کا حصہ ہے
طے ہوا نظم ہی مستقبل ہے پان سو بل ہے بھئی پیارو
آنکھ نہ مارو غزل ہمارے حسب نسب کا حصہ ہے
اک دن جب بوڑھے پینٹر کے پاس شراب کے پیسے نہیں تھے
چھت پر یہ گھنگھور گھٹا تب سے اس پب کا حصہ ہے
سیکس جو پہلے ساختیاتی روز و شب کا حصہ تھی
اب مابعد ساختیاتی روز و شب کا حصہ ہے
قافیہ بحر ردیف وغیرہ جیسے حریف ظریف وغیرہ
ان کو ٹھنڈا سوڈا پلاؤ بھائی یہ کب کا قصہ ہے
ادریس بابر