الٹی ہر ایک رسم جہان شعور ہے
سیدھی سی اک غزل مجھے لکھنی ضرور ہے
وحدت میں اعتبار حدوث و قدم نہیں
تھا جو بطون میں یہ وہی تو ظہور ہے
تارک وہی ہے جس نے کیا کل کو اختیار
یعنی حریص تر ہے وہی جو صبور ہے
مطلق یگانگی ہے تو نزدیک و دور کیا
پہنچا ہے جو قریب وہی دور دور ہے
اصل حیات ہے یہی کہتے ہیں جس کو موت
جینے کی آرزو ہے تو مرنا ضرور ہے
اقرار بندگی ہے خدائی کا ادعا
عجز و نیاز کیا ہے کمال غرور ہے
امید کیجئے اگر امید کچھ نہیں
غم کھائیے بہت جو خیال سرور ہے
زلف سیاہ سے رخ تاباں کا حسن ہے
کہتے ہو جس کو دیو حقیقت میں حور ہے
بے معصیت خزانۂ رحمت ہے رائیگاں
سچ پوچھئے تو جرم نہ کرنا قصور ہے
اظہار جان پاک ہے جسم کثیف سے
بے پردگی حجاب ہے ظلمت ہی نور ہے
بالاتفاق ہستیٔ وہمی ہے نیتی
ہشیار ہے جو نشۂ غفلت میں چور ہے
اعلیٰ تھا جس کا رتبہ وہ اسفل میں ہے اسیر
صف نعال موقف صدر الصدور ہے
ہے راہ کی تلاش تو کر گمرہی طلب
عاقل وہی ہے عقل میں جس کی فتور ہے
بیداریٔ وجود ہے خواب عدم میں غرق
لب بند ہو گئے یہی شور نشور ہے
ہر چند شغل شعر نہیں آج کل ضرور
نذرانہ پیر جی کے لئے کچھ ضرور ہے
اسماعیلؔ میرٹھی