مجھ کو دن رات سوچنے والا
کوئی ایسا ہو چاہنے والا
کچھ تو بولو کہاں گیا آخِر
مجھ سے احوال پوچھنے والا
میرے اندر بھی جھانک کر دیکھے
مجھ کو باہر سے دیکھنے والا
مجھ کو جانے نہ دے خفا ہو کر
وہ شرارت سے روٹھنے والا
اب نہیں ہے وفا کا دَور کہ جب
ساتھ دیتا تھا چاہنے والا
دُور جانے کی جستجو میں ہے
میرے قدموں کو روکنے والا
عمر بھر کے لیے محبت سے
ہے کوئی ہاتھ تھامنے والا؟
منزّہ سیّد