کس توقع جئیں ہم دیوانے
کون کرتا ہے کرم دیوانے
پاسِ حالات بجا ہے لیکن
ہو نہ جائیں کہیں ہم دیوانے
اس زمانے میں وفا کا دعویٰ
خود پہ کرتے ہیں ستم دیوانے
زندگی تلخ ہوئی جاتی ہے
کھو نہ دیں اپنا بھرم دیوانے
چونک چونک اٹھے خرد کے بندے
جب بھی مل بیٹھے بہم دیوانے
ڈھونڈتے پھرتے ہیں عنواں کوئی
کر کے افسانہ رقم دیوانے
کھا گئے قحط جنوں میں باقیؔ
بیچ کر لوح و قلم دیوانے
باقی صدیقی