کیا کیا چہرے چیخ رہے ہیں یادوں کے انبار تلے
دل پر ایسا بوجھ دھرا ہے جو ہٹنے کا نام نہ لے
اپنی ٹوٹی چھت پر شاید اک دن سورج چمکا تھا
مٹھی میں کچھ دھوپ چرائے بیٹھا ہوں دیوار تلے
پت جھڑ کے آوارہ جھونکے ان پر ڈیرا ڈالے ہیں
جن شاخوں پر بچھڑے پنچھی آ ملتے تھے شام ڈھلے
قسمت ہم کو پھینک گئی ہے تیز ہوا کی راہوں میں
دل بھی کیا ہے ایک دیا ہے دیکھیں کتنی دیر جلے
منہ دیکھی باتوں میں یارو کیا رکھا ہے رہنے دو
حال ہمارا تم مت پوچھو جاؤ ہم بیمار بھلے
دنیا کا دستور یہی ہے ناقدری کی بات نہیں
جو بھی لمحوں کو ٹھکرائے صدیوں اپنے ہاتھ ملے
اپنی اپنی سب کی راہیں اپنا اپنا سب کا سفر
تم بھی کسی کے ساتھ چلے ہو ہم بھی کسی کے ساتھ چلے
جانے رستہ بند ہے قیصرؔ یا کوئی پچھتاوا ہے
اس نگری سے جو بھی جائے پھر آنے کا نام نہ لے
قیصر الجعفری