اردو غزلیاتشعر و شاعریقیصرالجعفری

کیا کیا چہرے چیخ رہے ہیں

قیصرالجعفری کی ایک اردو غزل

کیا کیا چہرے چیخ رہے ہیں یادوں کے انبار تلے
دل پر ایسا بوجھ دھرا ہے جو ہٹنے کا نام نہ لے

اپنی ٹوٹی چھت پر شاید اک دن سورج چمکا تھا
مٹھی میں کچھ دھوپ چرائے بیٹھا ہوں دیوار تلے

پت جھڑ کے آوارہ جھونکے ان پر ڈیرا ڈالے ہیں
جن شاخوں پر بچھڑے پنچھی آ ملتے تھے شام ڈھلے

قسمت ہم کو پھینک گئی ہے تیز ہوا کی راہوں میں
دل بھی کیا ہے ایک دیا ہے دیکھیں کتنی دیر جلے

منہ دیکھی باتوں میں یارو کیا رکھا ہے رہنے دو
حال ہمارا تم مت پوچھو جاؤ ہم بیمار بھلے

دنیا کا دستور یہی ہے ناقدری کی بات نہیں
جو بھی لمحوں کو ٹھکرائے صدیوں اپنے ہاتھ ملے

اپنی اپنی سب کی راہیں اپنا اپنا سب کا سفر
تم بھی کسی کے ساتھ چلے ہو ہم بھی کسی کے ساتھ چلے

جانے رستہ بند ہے قیصرؔ یا کوئی پچھتاوا ہے
اس نگری سے جو بھی جائے پھر آنے کا نام نہ لے

قیصر الجعفری

سائٹ ایڈمن

’’سلام اردو ‘‘،ادب ،معاشرت اور مذہب کے حوالے سے ایک بہترین ویب پیج ہے ،جہاں آپ کو کلاسک سے لے جدیدادب کا اعلیٰ ترین انتخاب پڑھنے کو ملے گا ،ساتھ ہی خصوصی گوشے اور ادبی تقریبات سے لے کر تحقیق وتنقید،تبصرے اور تجزیے کا عمیق مطالعہ ملے گا ۔ جہاں معاشرتی مسائل کو لے کر سنجیدہ گفتگو ملے گی ۔ جہاں بِنا کسی مسلکی تعصب اور فرقہ وارنہ کج بحثی کے بجائے علمی سطح پر مذہبی تجزیوں سے بہترین رہنمائی حاصل ہوگی ۔ تو آئیے اپنی تخلیقات سے سلام اردوکے ویب پیج کوسجائیے اور معاشرے میں پھیلی بے چینی اور انتشار کو دورکیجیے کہ معاشرے کو جہالت کی تاریکی سے نکالنا ہی سب سے افضل ترین جہاد ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

Back to top button