- Advertisement -

ستم سے گو یہ ترے کشتۂ وفا نہ رہا

میر تقی میر کی ایک غزل

ستم سے گو یہ ترے کشتۂ وفا نہ رہا
رہے جہان میں تو دیر میں رہا نہ رہا

کب اس کا نام لیے غش نہ آگیا مجھ کو
دل ستم زدہ کس وقت اس میں جا نہ رہا

ملانا آنکھ کا ہر دم فریب تھا دیکھا
پھر ایک دم میں وہ بے دید آشنا نہ رہا

موئے تو ہم پہ دل پُر کو خوب خالی کر
ہزار شکر کسو سے ہمیں گلہ نہ رہا

ادھر کھلی مری چھاتی ادھر نمک چھڑکا
جراحت اس کو دکھانے کا اب مزہ نہ رہا

ہوا ہوں تنگ بہت کوئی دن میں سن لیجو
کہ جی سے ہاتھ اٹھاکر وہ اٹھ گیا نہ رہا

ستم کا اس کے بہت میں نزار ہوں ممنون
جگر تمام ہوا خون و دل بجا نہ رہا

اگرچہ رہ گئے تھے استخوان و پوست ولے
لگائی ایسی کہ تسمہ بھی پھر لگا نہ رہا

حمیت اس کے تئیں کہتے ہیں جو میر میں تھی
گیا جہاں سے پہ تیری گلی میں آ نہ رہا

میر تقی میر

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
میر تقی میر کی ایک غزل