اردو غزلیاتشعر و شاعریمیر تقی میر

کرتا ہوں اللہ اللہ

میر تقی میر کی ایک اردو غزل

کرتا ہوں اللہ اللہ درویش ہوں سدا کا

سرمایۂ توکل یاں نام ہے خدا کا

میں نے نکل جنوں سے مشق قلندری کی

زنجیرسر ہوا ہے تھا سلسلہ جو پا کا

یارب ہماری جانب یہ سنگ کیوں ہے عائد

جی ہی سے مارتے ہیں جو نام لے وفا کا

کیا فقر میں گذر ہو چشم طمع سیے بن

ہے راہ تنگ ایسی جیسے سوئی کا ناکا

ابر اور جوش گل ہے چل خانقہ سے صوفی

ہے لطف میکدے میں دہ چند اس ہوا کا

ہم وحشیوں سے مدت مانوس جو رہے ہیں

مجنوں کو شوخ لڑکے کہنے لگے ہیں کاکا

آلودہ خوں سے ناخن ہیں شیر کے سے ہر سو

جنگل میں چل بنے تو پھولا ہے زور ڈھاکا

یہ دو ہی صورتیں ہیں یا منعکس ہے عالم

یا عالم آئینہ ہے اس یار خودنما کا

کیا میں ہی جاں بہ لب ہوں بیماری دلی سے

مارا ہوا ہے عالم اس درد بے دوا کا

زلف سیاہ اس کی رہتی ہے چت چڑھی ہی

میں مبتلا ہوا ہوں اے وائے کس بلا کا

غیرت سے تنگ آئے غیروں سے لڑ مریں گے

آگے بھی میرؔ سید کرتے گئے ہیں ساکا

 

میر تقی میر

سائٹ منتظم

’’سلام اردو ‘‘،ادب ،معاشرت اور مذہب کے حوالے سے ایک بہترین ویب پیج ہے ،جہاں آپ کو کلاسک سے لے جدیدادب کا اعلیٰ ترین انتخاب پڑھنے کو ملے گا ،ساتھ ہی خصوصی گوشے اور ادبی تقریبات سے لے کر تحقیق وتنقید،تبصرے اور تجزیے کا عمیق مطالعہ ملے گا ۔ جہاں معاشرتی مسائل کو لے کر سنجیدہ گفتگو ملے گی ۔ جہاں بِنا کسی مسلکی تعصب اور فرقہ وارنہ کج بحثی کے بجائے علمی سطح پر مذہبی تجزیوں سے بہترین رہنمائی حاصل ہوگی ۔ تو آئیے اپنی تخلیقات سے سلام اردوکے ویب پیج کوسجائیے اور معاشرے میں پھیلی بے چینی اور انتشار کو دورکیجیے کہ معاشرے کو جہالت کی تاریکی سے نکالنا ہی سب سے افضل ترین جہاد ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button